امریکہ اور یورپی یونین کی پابندیوں نے 1970 سے اب تک 3 کروڑ 80 لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔
امریکہ اور یورپی یونین کی پابندیوں نے 1970 سے اب تک 3 کروڑ 80 لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔
امن قائم کرنے کے نام پر پرامن ذریعہ ہونے کے بجائے، یہ اقدامات بھوک اور محرومی کو ہتھیار بنا کر مغربی غلبہ قائم رکھنے کا ذریعہ بنانے گیے۔
امریکہ اور یورپ طویل عرصے سے یکطرفہ پابندیوں کو سامراجی طاقت کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں، تاکہ گلوبل ساؤتھ کی اُن حکومتوں کو سزا دی جا سکے یا تباہ کیا جا سکے جو مغربی غلبے سے آزادی حاصل کرنے، آزادانہ راستہ اختیار کرنے اور کسی بھی قسم کی حقیقی خودمختاری قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
سن 1970 کی دہائی کے دوران اوسطاً تقریباً 15 ممالک کسی بھی سال مغربی یکطرفہ پابندیوں کی زد میں تھے۔ ان پابندیوں کا مقصد زیادہ تر مالیات اور بین الاقوامی تجارت تک رسائی کو روکنا، صنعتوں کو غیر مستحکم کرنا، اور بحرانوں کو ہوا دے کر ریاستی ڈھانچے کو گرانا تھا۔ مثال کے طور پر، جب 1970 میں مقبول سوشلسٹ رہنما سلواڈور آلینڈے چیلی کے صدر منتخب ہوئے، تو امریکی حکومت نے ملک پر سخت پابندیاں لگا دیں۔ ستمبر 1970 میں وائٹ ہاؤس میں ایک اجلاس کے دوران امریکی صدر رچرڈ نکسن نے واضح کہا کہ مقصد یہ ہے کہ "چیلی کی معیشت کو چیخنے پر مجبور کیا جائے"۔ تاریخ دان پیٹر کورنبلوہ نے ان پابندیوں کو ایک "غیر انسانی ناکہ بندی" قرار دیا، جس نے چیلی کو بین الاقوامی مالیاتی ذرائع سے کاٹ دیا، سماجی بے چینی پیدا کی، اور بالآخر امریکی پشت پناہی والے فوجی انقلاب کا راستہ ہموار کیا جس نے آگوستو پنوشے کی ظالمانہ دائیں بازو کی آمریت قائم کی۔
اب تک محققین نے پابندیوں کے انسانی نقصان کو زیادہ تر انفرادی کیسز کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کی ہے، جو کہ نہایت مشکل کام ہے اور صرف جزوی تصویر فراہم کرتا ہے۔ لیکن اس سال شائع ہونے والی نئی تحقیق نے یہ صورتحال بدل دی ہے۔ لانسیٹ گلوبل ہیلتھ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کی قیادت یونیورسٹی آف ڈینور کے ماہرِ اقتصادیات فرانسسکو روڈریگز نے کی۔ اس میں 1970 سے 2021 تک بین الاقوامی پابندیوں سے جڑے اضافی اموات کے اعداد و شمار سامنے لائے گئے ہیں۔
نتائج نہایت چونکا دینے والے ہیں۔ محققین کے مطابق 1970 سے اب تک امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے لگائی گئی یکطرفہ پابندیاں تقریباً 3 کروڑ 80 لاکھ اموات سے وابستہ ہیں۔ 1990 کی دہائی میں بعض برسوں میں ایک ملین سے زائد لوگ مارے گئے۔ صرف 2021 میں ہی 8 لاکھ سے زیادہ افراد پابندیوں کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
یہ نتائج بتاتے ہیں کہ ہر سال پابندیوں سے مرنے والوں کی تعداد جنگوں میں براہِ راست ہلاک ہونے والوں سے کئی گنا زیادہ ہے (اوسطاً 100,000 سالانہ جنگی ہلاکتیں)۔ ان میں سے نصف سے زیادہ بچے اور بزرگ شامل ہیں، جو غذائی قلت کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق صرف 2012 کے بعد سے اب تک پابندیوں نے 10 لاکھ سے زائد بچوں کی جان لی ہے۔
بھوک اور محرومی مغربی پابندیوں کا حادثاتی نتیجہ نہیں بلکہ ایک بنیادی مقصد ہے۔ اس کی مثال اپریل 1960 کی امریکی محکمہ خارجہ کی ایک یادداشت ہے، جس میں کیوبا پر پابندیوں کے مقصد کی وضاحت کی گئی۔ یادداشت میں تسلیم کیا گیا کہ فیڈل کاسترو اور ان کی انقلابی تحریک کو کیوبا میں وسیع عوامی حمایت حاصل ہے، لہٰذا مشورہ دیا گیا کہ "کیوبا کی معاشی زندگی کو کمزور کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کیا جائے" تاکہ "بھوک، مایوسی اور حکومت کے خاتمے" کی راہ ہموار ہو۔
مغربی پابندیوں کی طاقت اُن کے عالمی مالیاتی نظام پر غلبے سے آتی ہے: دنیا کی طاقور کرنسیاں (ڈالر اور یورو)، بین الاقوامی ادائیگی کا نظام اور اہم ٹیکنالوجیز (جیسے سیٹلائٹ، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، سافٹ ویئر) پر اجارہ داری۔ اگر گلوبل ساؤتھ کے ممالک ترقی کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی اس انحصاریت کو کم کرنا ہوگا۔ روس کے حالیہ تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ حکمتِ عملی کامیاب ہوسکتی ہے۔
اس مقصد کے لیے حکومتیں جنوبی ممالک کے درمیان تجارت اور کرنسی کے تبادلے کو فروغ دے سکتی ہیں، علاقائی منصوبہ بندی کے ذریعے ضروری ٹیکنالوجیز تیار کر سکتی ہیں، اور مغربی کنٹرول سے آزاد نئے ادائیگی کے نظام قائم کر سکتی ہیں۔ چین کی جانب سے بنائے گئے CIPS (بین الاقوامی ادائیگی کا نظام)، BeiDou (سیٹلائٹ نظام)، اور ہواوے کی ٹیلی کمیونیکیشن سہولیات اب دیگر گلوبل ساؤتھ ممالک کے لیے متبادل فراہم کرتی ہیں، جو مغربی انحصار اور پابندیوں کے جال سے نکلنے کا راستہ دکھا سکتی ہیں۔
انیس سو ستر کی دہائی کے مقابلے میں آج صورتحال کہیں زیادہ سنگین ہے۔ 1990 اور 2000 کی دہائی میں اوسطاً 30 ممالک پابندیوں کی زد میں تھے، جب کہ 2020 کی دہائی میں یہ تعداد بڑھ کر 60 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک کا ایک بڑا حصہ ہے۔
پابندیوں کے انسانی نقصانات کئی بار سامنے آچکے ہیں۔ مثال کے طور پر، 1990 کی دہائی میں عراق پر امریکی پابندیوں نے غذائی قلت، پینے کے صاف پانی کی کمی، اور ادویات و بجلی کی شدید قلت پیدا کی۔ حالیہ برسوں میں وینزویلا کے خلاف امریکی معاشی جنگ نے شدید معاشی بحران پیدا کیا، اور ایک تحقیق کے مطابق صرف ایک سال (2017–2018) میں 40 ہزار زائد اموات ہوئیں۔
یہ اقدامات نہ صرف ان ممالک کے لیے ضروری ہیں جو خودمختار ترقی چاہتے ہیں بلکہ ایک اخلاقی فریضہ بھی ہیں۔ دنیا کو قبول نہیں کرنا چاہیے کہ ہر سال پانچ لاکھ افراد مغربی غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے مارے جائیں۔ ایک ایسا عالمی نظام جو اس طرح کے تشدد پر قائم ہو، اسے ختم کرکے زیادہ انصاف پسند اور کثیر قطبی نظام سے بدلنا ہوگا۔
Comments
Post a Comment