اسلام بمقابلہ کفریہ نظام جمہوریت اور بانی پاکستان محمد علی جناح کا ارشاد

اسلام بمقابلہ کفریہ نظام جمہوریت اور بانی پاکستان محمد علی جناح کا ارشاد۔

بانی پاکستان محمد علی جناح نے علیگڑھ یونیورسٹی میں 10 مارچ 1941 کو فرمایا۔

میں باربار کہہ چکاہوں کہ جمہوری پارلیمانی نظام حکومت جیسا کہ انگلستان اور

بعض دوسرے مغربی ممالک میں ہے برصیغرکے لئے قطعا غیر موزوں ہے

(نوائے وقت  ۱۶۔۶۔۱۹۷۹)

دین اسلام
دین اسلام ایک مکمل ظابطہ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں  کو عقائد ،عبادات،معاملات ، اخلاقیات،معیشت، معاشرت، سیاست،تہذیب و تمدن اور عمرانیات زندگی کے ہر شعبے میں کامل رہنمائی عطا کرتا ہے اور کسی بھی معاملے میں کسی دوسرے دین تہذہب نظام اور ازم  سے کچھ ادھار لینے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ وہ ایک مکمل نظام حیات ہے۔اللہ تعائی نے اس حقیقت کو قرآن میں ایسے بیاں کیا۔
 
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِىْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۚ
(المائدہ ۳)

ترجمہ
آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے لیے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے۔
 
یونانی نظام حکومت جمہوریت کی تعریف
Government of the People by the people for the people
لوگوں کی حکومت لوگوں کے لئے اور لوگوں کے ذریعے۔
 
اسلام بمقابلہ جمہوریت
جب دین  اسلام  کی صورت میں ہمارے پاس مکمل نظام حیات اور ضابطہ حیات  موجود ہے تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ اسلام کے مکمل اور قیمتی نظام کے باوجود ہم آج بھی   ہم اس یونانی اور انگزیز کے دیے ہوئے نظام کے تابع ہیں۔جبکہ یہ  فلسفہ اور عمرانی عقیدہ کارفرماہے جو کہ قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات کے خلاف ہے۔دراصل مسلمانوں نے جب دین  کی فرمابردار ی چھوڑکر دین کو صرف نماز اور روزہ تک محدود کردیا  تب یہ خرابی  پیدا ہوئی پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ ایسے    بڑے بڑے مولانا  مارکیٹ میں لائے گئے کہ وہ اپنے فتاوی  کے ذریعے عوام کے اندر جمہوریت کا  زہر گھولیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج کئی نام نہاد  اسلامی سیاسی جماعتیں پوری دنیا میں قائم ہیں۔افسوس کا امر ہے کہ جن علماء اکرام کو خلافت کے نظام کی جدوجہد کرنی چاہیئے تھی وہ آج خود انگزیزی نظام کے غلام بن بیٹے جس کے کل وہ قیامت کے دن ذمہ دار ہوں گے۔
 
اسلام اور جمہوریت  میں فرق

 اسلام
حاکمیت  ( حکم صرف اللہ  ہی کا مانا جائے گا )
( ؕ اِنِ الۡحُکۡمُ  اِلَّا لِلّٰہِ)
(حکم صرف اللہ کا حق ہے)
 (سورۃ یوسف ۴۰)
وَّلَا يُشْرِكُ فِىْ حُكْمِهٓ ٖ اَحَدًا 
اور اللہ تعائی اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا
(سورۃ  الکھف ۲۶)
 
جمہوریت
 
 حکم انسانوں کی اکژیت کا مانا جائے گا   ( تو حید فی الحکم کی نفی) یعنی  
حکم الناس  علی الناس لناس
لوگوں کی حکومت لوگوں کے ذریعے
 
اسلام
قانون سازی کا اعتبار صرف اللہ کو ہے
اَمْ لَـهُـمْ شُرَكَآءُ شَرَعُوْا لَـهُـمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْ بِهِ اللّـٰهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِىَ بَيْنَـهُـمْ ۗ وَاِنَّ الظَّالِمِيْنَ لَـهُـمْ عَذَابٌ اَلِـيْـمٌ
کیا ان کے اور شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ نکالا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی، اور اگر فیصلہ کا وعدہ نہ ہوا ہوتا تو ان کا دنیا ہی میں فیصلہ ہوگیا ہوتا، اور بے شک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
( سورۃ الشورٰی ۲۱)
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ
 اور جو اللہ نے نازل کیا ہے اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو وہی لوگ کافر ہیں ۔
(سورۃ المایدہ ۴۴)

جمہوریت
 
قانوں سازی کا احتیار صرف پارلیمنٹ کو ہے
جہموری  نظام میں قانون سازی کا احتیار منتخب انسانوں کے ایک گروہ ( پارلیمنٹ) کو ہوتا ہے جو پارلیمنٹ کی اکژیت کی بنیاد پر قانون سازی کرتا ہے اور یہ پارلیمنٹ اللہ تعائی کے نازل کردہ قانون )(قرآن و سنت) کو منظور یا مسترد کرنے کا اختیار رکھتی ہے جو صریح کفر ہے ۔
جمہوری نظام میں اکثریت کے منظور کودہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ضروری ہے خواہ وہ اللہ کے نازل کردہ قانوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو مثلا چوری اور زنا کی الہامی سزایئں و غیرہ جو ہمارے ملک میں منسوخ ہیں۔
 
اسلام 
 
 جمہوریت کی بنیاد  قرآن  کے منافی  ہے
وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِى الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۚ
اور اگر تو اکثریت کا کہا مانے گا جو دنیا میں ہیں تو تجھے اللہ کی راہ سے ہٹا دیں گے
(سورۃ  الانعام  ۱۱۶
)
 
 وَ لٰکِنَّ  اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ
لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
(سورۃ السبا  ۳۶) 
 
 جمہوریت
 
جمہوریت میں زمیں پر رہنے والوں کا اکژیت کی اطاعت کرنا لازمی ہے جبکہ جمہوری نظام جاہل اکژیت پر اپنی بنیاد رکھتا ہے۔
 
اسلام
 
عالم او جاہل برابر نہیں ہوسکتے ہیں
ؕ قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ؕ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ
فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟ بس نصیحت تو عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں
( سورۃ الزمر ۹)
 
عالم اور جاہل برابر ہیں  (قرآن کا انکار)
عالم اور جاہل  کا ووٹ برابر ہے
One Man One Vote کے اصول کے تحت
ایک انسان ایک ووٹ جمہوری نظام میں عالم اور جاہل عقلمند اور بے وقوف کافر اور مسلم سب کا ووٹ برابر ہوتا ہے۔
 
اسلام 
 
اسلام میں اتحاد امت کا داعی
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّـٰهِ جَـمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۚ
اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو
(سورۃ العران ۱۰۳)
 
جمہوریت
جمہوریت افتراق و انتشار کا مبلغ
جمہوری نظام حصول اقتدار کے لئے میدان تیار کرتا ہے تو حب جاہ کی لالچ میں بے شمار  سیاسی پارٹیاں وجود میں  آجاتی ہیں اور مسلمان تفرقہ میں پڑجاتے  ہیں۔

اسلام

عورت کی حکمرانی جائنز نہیں
لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة
وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پاسکتی جس نے حکمران کسی عورت کا بنالیا ہے
( صحیح البخا
ري (4425) )
 
جمہوریت
 
عورت کی حکمرانی جائز ہے
جمہوریت ہر معاملے میں مسادات مردوزن اور عورت کی حکمرانی کی قائل اور فائل ہے
جوکہ آئین پاکستان ۱۹۷۳کے عین مطابق ہے جس کو پارلیمنٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
 
اسلام
 
طلب امارۃ منع ہے
عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- قال: دخلتُ عَلى النَبيِّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- أنَا ورجلاَن مِنْ بَنِي عَمِّي، فَقَال أحدهما: يا رسول الله، أمرنا على بعض ما ولاك الله -عز وجل- وقال الآخر مثل ذلك، فقال: «إِنَّا وَالله لاَ نُوَلِّي هَذَا العَمَلَ أَحَدًا سَأَلَهُ، أَو أَحَدًا حَرِصَ عَلَيهِ».

    ابو موسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے چچا کے بیٹوں میں سے دو آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان دونوں میں سے ایک نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی تولیت میں جو دیا، اس کے کسی حصے پر ہمیں امیر بنا دیجیے۔ دوسرے نے بھی یہی کہا، تو آپ نے فرمایا: "اللہ کی قسم! ہم کسی ایسے شخص کو اس کام کی ذمے داری نہیں دیتے، جو اس کو طلب کرے اورنہ ہی ایسے شخص کو، جو اس کا خواہش مند ہو"۔   
(صحیح بخاری 7149،صحيح مسلم حدیث 4717)

 جمہوریت
 
امارۃ کو طلب کرنا لازمی ہے۔
یہ جمہوری نظام دین اسلام کے مخالف اس طرح بنایا گیا ہے کہ کوئی اسلما پسند اگر عہدے کا طالب نہ بھی ہوتو اسکو اسلام کی مخالف کرنی پڑے اور نہ صرف عہد طلب کرنا پڑے بلکہ اس کے لئے باقاعدہ مہم چلائی پڑے یعنی شروعات ہی باطل کی پیروی سے کی جائے۔

نتیجہ
مسلمانوں کو چاہیئے کہ جمہوریت کے اس کافرانہ نظام  کا انکار کرکے اسلامی نظام کے لئے کوشش کر یں ضرورت ہے کہ لاالہ اللہ کے اقرار کرنے والوں کو صحیح معنوں میں اس کلمہ کا مطلب سمجھایا جائے اور اسی مسئلہ لاالہ اللہ محمد رسول اللہ کو انسانیت کا  نمبر ون مسئلہ بنایا جائے اور خدا کی زمیں پر صرف خدا ہی کا نظام قائم کرنے کی جد جہد کرنی چاہیئے  جو جمہوریت کے کفریہ نظام سے ممکن نہیں اس لئے مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اللہ کے نظام یعنی
خلافت کی جدوجہد کو دین کا نمبر وون مسئلہ سمجھ کراس اعظم نظام کو قائم کرنے کی کوشش کر ہیں۔
 
 

Comments

Popular posts from this blog

History Of Drones Strike In Pakistan From (18 June 2004 To 5 July 2018)

پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی خفیہ تاریخ

ایرانی جرنل قاسم سلیمانی ایک خونی درندہ