کس طرح برطانوی استعمار نے 40 سالوں میں 100 ملین ہندوستانیوں کو ہلاک کیا۔

  1. کس طرح  برطانوی استعمار  نے ۴۰ سالوں میں ۱۰۰ ملین ہندوستا نیوں  کو ہلاک کیا 

     

     

     

    حالیہ برسوں نے برطانوی سلطنت  کی پرانی یادوں کو دوبارہ زندہ کردیا ہے ان ہائی پروفائل کتب  میں جیسے کہ۔



       

     جس میں    نیل فرگوسن کی کتاب " ایمپائر برطانویوں نے جدید دنیا کو کیسے بنایا"؟ اور  بروس گلی  کی کتاب "  آخری سامراجی" شامل ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ برطانوی استعمار نے ہندوستان اور دیگر کالونیاں میں خوشحالی اور ترقی کی۔دو سال پہلے  ایک سروے  یو پول کی جانب سے کیا گیا جس کے تحت برطانیہ میں٪ 32 لوگوں کو  اپنے ملک کی  استعمار تاریخ پر فخر ہے۔

    معاشی تاریخ دان رابرٹ سی ایلن کی تحقیق کے مطابق، برطانوی دور حکومت میں ہندوستان میں انتہائی غربت میں اضافہ ہوا، جو 1810 میں٪ 23 سے بڑھ کر 20ویں صدی کے وسط میں٪ 50 سے زیادہ ہو گئی ۔

    برطانوی نوآبادیاتی دور کے دوران حقیقی اجرتوں میں کمی واقع ہوئی، جو 19ویں صدی میں آخری حد تک پہنچ گئی، جبکہ  قحط سالی اپنے انتہا تک پہنچ گئی۔ ہندوستانی عوام کو فائدہ پہنچانے سے دور استعماریت ایک انسانی المیہ تھا جس کی تاریخ میں چند متوازی مثالیں درج  ذیل ہیں۔ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ 1880 سے 1920 تک کا عرصہ  برطانیہ کی سامراجی طاقت کا عروج رہا جوکہ ہندوستان کے لیے خاص طور پر تباہ کن ثابت ہوا۔ 1880 کی دہائی میں شروع ہونے والی نوآبادیاتی حکومت کی طرف سے کی گئی جامع آبادی کی مردم شماری سے پتہ چلتا ہے کہ اس عرصے کے دوران اموات کی شرح میں کافی اضافہ ہوا، 1880 کی دہائی میں 37.2 اموات فی 1,000 افراد سے 1910 کی دہائی میں 44.2 ہو گئیں۔ متوقع زندگی کی اوسط  26.7 سال سے کم ہو کراوسط 21.9  سال ہو گئی۔

    ورلڈ ڈویلپمنٹ جریدے کے ایک حالیہ مقالے میں   مردم شماری کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے ان چار ظالمانہ دہائیوں کے دوران برطانوی سامراجی پالیسیوں سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کا اندازہ لگایا گیا۔ہندوستان میں شرح اموات کے بارے میں مضبوط اعداد و شمار صرف 1880 کی دہائی سے موجود ہ ہیں۔اگر ہم اسے "عام" اموات کی بنیاد کے طور پر استعمال کرہیں ، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ 1891 سے 1920 کے عرصے کے دوران برطانوی استعمار کی سرپرستی میں تقریباً 50 ملین سے زائد اموات ہوئیں۔

    پچاس ملین اموات ایک حیران کن اعداد و شمار ہے، اور پھر بھی یہ ایک قدامت پسندانہ تخمینہ ہے۔ حقیقی اجرت کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 1880 تک، نوآبادیاتی ہندوستان میں معیار زندگی پہلے ہی اپنی سابقہ ​​سطحوں سے ڈرامائی طور پر گر چکا تھا۔ ایلن اور دیگر اسکالرز کا استدلال ہے کہ نوآبادیات سے پہلے، ہندوستانی معیار زندگی "مغربی یورپ کے ترقی پذیر حصوں کے برابر" ہو سکتا ہے۔ ہم یقینی طور پر نہیں جانتے کہ ہندوستان کی قبل از نوآبادیاتی اموات کی شرح کیا تھی، لیکن اگر ہم فرض کریں کہ یہ 16ویں اور 17ویں صدی میں انگلستان کی طرح تھی (27.18 اموات فی 1000 افراد)، تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں 165 ملین سے زائد اموات ہوئیں۔

    یہ واضح ہے کہ 100 ملین کے لگ بھگ لوگ برطانوی استعمار کے عروج  کے دوران مارے گئے۔  یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور  بھیانک پالیسی کا نتیجہ تھی جو برطانوی استعمار نے ہندوستان کی عوام کے خلاف استعمال کی تھی۔ یہ سوویت یونین، ماؤسٹ چین، شمالی کوریا، پول پوٹ کمبوڈیا اور مینگیسٹو کے ایتھوپیا میں تمام قحط کے دوران ہونے والی اموات کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ برطانوی راج  اس زبردست جانی نقصان کا سبب کیسے بنا؟ برطانیہ نے ہندوستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر  یعنی (  صنعتی  اداروں )  کو مؤثر طریقے سے تباہ کر ڈالا تاکہ ہندوستان ترقی نہ کرسکے۔ 

    نوآبادیات سے پہلے، ہندوستان دنیا کے سب سے بڑے صنعتی مصنوعات  پیدا کرنے والا ممالک میں سے ایک تھا۔ہندوستان  دنیا کے کونے کونے میں اعلیٰ معیار کے ٹیکسٹائل مصنوعات  برآمد کرتا تھا۔ انگلستان میں تیار ہونے والا ٹیوڈری کپڑااسکا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا تاہم  اس کی تباہی اس وقت شروع ہوئی   جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1757 میں بنگال کا کنٹرول سنبھال لیا۔مؤرخ مدھوسری مکھرجی کے مطابق، نوآبادیاتی حکومت نے ہندوستانی محصولات کو عملی طور پر ختم کر دیا اور  برطانوی سامان کو مقامی مارکیٹ میں سیلاب کی طرح پھیلا دیا۔  حد سے زیادہ ٹیکسوں اور اندرونی ڈیوٹیوں کا ایک ایسا نظام بنایا جس نے ہندوستانیوں کو اپنے ہی  ملک کے اندر کپڑا فروخت کرنے سے روک دیا گیا  جس کے بعد مجبورن   ان کو  اپنا ہی بنا ہوا کپڑاصرف   برآمد کرنا پڑا۔

    اس کمپنی نے ہندوستان کو ایک مینوفیکچرنگ یعنی ( صنعتی ) ملک سے خام مال برآمد کرنے والے ملک میں تبدیل کردیا۔جس سے انگریز صنعت کاروں کو زبردست فائدہ حاصل ہوا، جب کہ ہندوستان کے افراد غربت  افلاس  بھوک  بیماریاں اور موت کا شکار ہوئے۔ 

    معاملات کو مزید خراب کرنے کے لیے، برطانوی نوآبادیات نے قانونی لوٹ مار کا ایک نظام قائم کیا جسے کو معاصرین   "ڈرین آف ویلتھ" کے نام سے جانتے ہیں۔برطانیہ نے ہندوستانی آبادی پر ٹیکس لگایا اور پھر اس آمدنی کو ہندوستانی مصنوعات - انڈگو، اناج، کپاس اور افیون خریدنے کے لیے استعمال کیا - اس طرح یہ اشیا ءمفت میں حاصل کی گئیں۔ جس کے بعد یہ سامان یا تو برطانیہ کے اندر استعمال  کیا جاتا  یا پھر بیرون ملک برآمد کیا جاتا تھا۔ جس کی آمدنی برطانوی ریاست کی جیب میں  جاتی۔برطانیہ اپنی آباد کار کالونیاں  یعنی امریکہ،کینیڈا اور آسٹریلیا کی صنعتی ترقی کے لیے مالی اعانت فراہم کرتا تھا۔

    برطانوی سامراج نے ہندوستان کو آج کے پیسوں کے مطابق ۴۵ کھرب ڈالر کا عظیم   نقصان پہنچایا  جو انگریز ہندوستان سے لوٹ کر لے گے۔ انگریزوں نے اپنا نظام "ڈرین آف ویلتھ" مسلط کرنے میں بے رحمی کا مظاہرہ کیا، ہندوستان کو خوراک برآمد کرنے پر مجبور کیا یہاں تک کہ  خشک سالی اور سیلاب سے مقامی غذائی تحفظ کو خطرہ لاحق ہوا۔تاریخ دانوں نے ثابت کیا ہےکہ  ۱۹  ویں صدی کے اواخر میں انگریز وں کی ظالمانہ  حکمت عملی کی وجہ سے  لاکھوں ہندوستانی بھوک سے مر گئے۔  ایک اندازہ کے مطابق ۵۰  لاکھ افراد بنگال میں بھوک اور افلاس  کا شکار ہو ئے جس کے  پیچھے انگریز کی پالیسیاں شامل تھیں   جس نے جان بوجھ کرقحط  سالی  پیدا کی ۔جبکہ ان کے وسائل کو برطانیہ اپنی آباد کار کالونیاں کو بھیج رہا  تھا۔

    نوآبادیاتی منتظمین اپنی پالیسیوں کے نتائج سے پوری طرح واقف تھے۔ انہوں نے لاکھوں لوگوں کو بھوک سے مرتے دیکھا لیکن وہ اپنی  ہٹ  دھرمی سے بعض نہ آیااور وہ جان بوجھ کر لوگوں کو اپنے بقا کے لیے ضروری وسائل سے محروم کرتا رہا۔ وکٹورین دور کے اواخر میں اموات کا غیر معمولی بحران کوئی حادثہ نہیں تھا۔ مؤرخ مائیک ڈیوس دلیل دیتے ہیں کہ برطانیہ کی سامراجی پالیسیاں " اتنی ہی اخلاقی طور پر بلند تھی کہ جتنی انسانوں کے اوپر ۱۸۰۰۰ فٹ سے بم گرائے جائے"

    تاریخ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہےاور نہ ہی  برطانوی سلطنت کے جرائم کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ لیکن معاوضے سے محرومی اور عدم مساوات کی وراثت کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو برطانوی استعمار نے پیدا کی تھی.اب میں سمجھتا ہوں کہ وہ وقت آگیا ہے  کہ جب  بین الاقوامی برادری ہندوستان سے لوٹی ہوئی دولت کو برطانیہ سے واپس  دلوانے میں اپنا کردار ادا کرئے۔

     از قلم فرید

     

     

     

Comments

Popular posts from this blog

History Of Drones Strike In Pakistan From (18 June 2004 To 5 July 2018)

پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی خفیہ تاریخ

ایرانی جرنل قاسم سلیمانی ایک خونی درندہ