ایرانی جرنل قاسم سلیمانی ایک خونی درندہ


ایرانی جرنل قاسم سلیمانی ایک خونی درندہ  

 قاسم سلیمانی کی تاریخ

جنوری 2، 2020 کو ، امریکہ کی زیرقیادت فضائی حملے میں بغداد بین الاقوامی ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہوئے ایک قافلے کو نشانہ بنایا گیا ، جس کے نتیجہ میں ایران کی دہشت گرد تنظیم القدس  فورس کا بدنام زمانہ کمانڈر قاسم سلیمانی اور اس کا ساتھی پاپولر موبلائزیشن کمیٹی کا  ڈپٹی چیئرمین أبو مهدي المهندس  مردارہوا۔ ایرانی حکومت کے اعلیٰ رہنما ، علی خامنہ ای نے سلییمانی کی موت پر تین دن کے سوگ کا اعلان کیا اور ذاتی طور پر سپریم قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کی۔

ایرانی عوام کی بھاری اکثریت قاسم سلیمانی کوایک بد نما علامت  سمجھتی تھی ۔ ایرانی عوام اور پورے خطے میں اس کے خلاف ہونے والے جرائم کی وجہ سے یہ قاتل حقیر جانا جاتا تھا۔۔ ایرانی عوام اور عراقی مظاہرین  کچھ عرصے سے سلیمانی کو عراق سے ملک بدر کرنے کا مطالبہ بھی کررہے تھے کیونکہ اس کے جرائم عراق میں خود شیعہ اکژیت کے خلاف ہورہے تھے۔ اس کی کوشش رہی کہ عراق کو ایران کے زیر اٹر لایا جائے۔

قاسم سلیمانی جنرل کے عہدے پر فائز تھا ، جس کو ۤخامنہ ای کا "کرائے کا قاتل "بھی کہا جاتا تھا۔وہ  نفرت کی علامت سمجھاجاتا  تھا۔

  ایران میں 2018 اور 2019 میں ہونے والی بغاوتوں کے دوران مظاہرین نے مختلف شہروں میں اس کے پوسٹروں کو پھاڑ ڈالا اور جلادیا تھا۔

قاسم سلیمانی 11 مارچ 1957 کو جنوب مشرقی صوبے کرمان کے شہر بافٹ کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ختم نہیں کی تھی کہ کم عمری میں غیر ہنر مند تعمیراتی مزدور کے طور پر کام کرنے لگا ۔اس نے کوئی فوجی تربیت حاصل نہیں کی تھی لیکن پھر بھی وہ اپنی بے رحمانہ جنگی حربوں اور حکومت کے سپریم لیڈر سے وفاداری کی وجہ سے آئی آر جی سی کمانڈ میں سر فہرست رہا۔ 1998 میں سلیمانی کو دہشت گرد القدس فورس کا کمانڈر مقرر کردیا گیا جو سلامی انقلابی گارڈ کارپس کا حصہ تھی۔   

دہشت گردالقدس فورس 1979 میں انقلاب کے فورا بعد قائم ہونے والی ایک فوجی تنظیم ہے جس کا واحد مقصد ایران کے اندرمخالفت کو دبانا اور ایران کی حدود سے باہر دہشت گردی کی جنگیں لڑنا ہے۔آئی آر جی سی کا مینڈیٹ شیعہ ملاؤں کے عقائد کو دنیا بھر میں دہشت گردی کے ذریعہ پھیلانا ہے جس میں قتل و غارت گری  ان کی پہلی ترجی ہے، دہشت گردی کی وارداتوں اور یرغمال بنانا ان کا اولین پیشہ اور جو اس نظرئے کی مخا لفت کرئے اس کو یا تووہ مروادیتے ہیں یا پھر  ہمیشہ کے لئے جیل میں ڈال دیتے ہیں۔

القدس فورس نے آئی آر جی سی میں ایک بہت ہی خاص کردار ادا کیا ہے اور اسے عراق سے شام ، یمن  اور براعظم افریقہ تا مشرق وسطی کے خطے میں خاص کر عرب ممالک کی حکومتون کو گرانے اور ان میں  مداخلت کرکے شیعیت پھیلانے کا حکم دیا گیا ہے۔جس میں سعودی عرب سہرفرسہت ہے۔

اگرچہ القدس فورس کو ایران سے باہر مشن تفویض کیے گئے ہیں لیکن سلیمانی  آئی آر جی سی کے سپریم کمانڈ کے ایک سینئر ممبر کی حیثیت سے ایران کے اندر بھی حکومت کے جابرانہ اقدام  کے لیے  سازوسامان فراہم کرنے  میں اہم کردار ادا کرتاتھا۔

جولائی 1999 میں ، طلباء کے احتجاج عروج پر تھے جب اس نے اس وقت کے صدر محمد خاتمی کو آگاہ کرتے ہوئے لکھا کہ اگر طلباءنے بغاوت کو ختم نہیں کیا تو آئی آر جی سی مداخلت کرکے ان کو کچل دیے گا۔آئی آر جی سی کے دوسرے جرنیلوں کے ساتھ سلیمانی نے کہا کہ اب ہمارا صبر ختم ہو گیا ہے۔جس کے بعد پولیس نے مظاہرین کو کچل دیا۔جیسا کہ انہوں نے ایک دہائی کے بعد 2009 میں ایک بار پھروہی کام انجام دیا۔

 ایرانی جرنل قاسم سلیمانی کا بہانک کردار میک ممبروں کا قتل عام  

قاسم سلیمانی نے ایران کی عوامی مجاہدین تنظیم یعنی میک ممبرون کے قتل عام میں اہم کردار ادا کیا جو  کیمپوں اشرف اور لبرٹی آو عراق میں مقیم تھے 2003 میں امریکی  عراق تنازعہ سے قبل قاسم سلیمانی نے عراق میں ایم ای کے یعنی میک ممبروں کے اڈوں کے خلاف متعدد حملوں کا ارادہ کیا۔11 جنوری 1993 سے اپریل 2003 تک ایران کی دہشت گرد القدس فورس نے عراق مین ایم ای کے کے خلاف  150 سے زیادہ دہشت گردی کے حملے کیے۔القدس فورس نے 90 کی دہائی میں عراق میں ایم ای کے قافلوں کو نشانہ بنانے کے لئے "امپروائزڈ ایکسپلوسیو ڈیوائس (آئی ای ڈی)" تیار کی۔ ۔2002 کے آخر تک 12 سے زیادہ سڑک  کے کنارے بم جن میں آئی ای ڈی کار بم بھی شامل تھے میک کے ممبروں کے قافلوں کے خلاف استعمال کیے گئے جس کے نتیجہ میں کم سے کم بھی 10 کےقریب میک ممبر ہلاک یا زخمی ہوئے۔ایک بدترین حملہ 9 جون 1999 کو کیا گیاجب ایم ای کے ممبروں سے بھری ایک بس گزر رہی تھی  بغداد خلیس روڈ کے ساتھ  جب سڑک کے  کنارے نصب بم پھٹا گیا جس کے نتیجہ میں 6 افراد موقع پر ہی ہلاک ہوئے اور 21 زؒخمی ہوئےاس  کے علاوہ متعدد مقامی عراقی کاروں کو بھی نقصان پہنچا ۔2003 میں عراق پر حملے کے بعد سلیمانی نے عراقی سرزمین پر اپنی رسائ کو بڑھایا اورمیک کے ممبروں کے خلاف  متعدد حملوں کا ارتکاب کرنے کے لئے عراقی سیاست اور فوج میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کیاجس میں 2009۔2013،2011 میں کیمپ اشرف کا قتل عام شامل ہے جس میں 52 افراد مارئے گئے اور 2012 سے 2016 تک کیمپ لبرٹی میں متعدد میزائل حملے بھی شامل ہیں۔      

 القدس فورس کی دہشت گردی عراقی عوام پر

 


کیمپ اشرف قتل عام

قاسم سلیمانی کا سب سے گھناؤنا جرم یکم ستمبر  2013 کو ہوا جب القدس فورس کےزیر اثرشیعہ دہشت گرد تنظیم  کاتعب حزب اللہ اور آس’یب اہل الحق  نے کپمپ اشرف میں قتل عام کیا جو  "کیمپ اشرف قتل عام" کے نام سے مشہور ہواجو عراق کے صوبہ دیالہ میں کیا گیا۔۔اس وقت اقوام متحدہ اور امریکہ کے ساتھ معاہدے کے تحت صرف 101 ایم ای کے ممبران اپنی جائیدادوں کے نگران کی حیثیت سے کیمپ اشرف میں مقیم تھے۔اس حملے کے نتیجے میں ایم ای کے کے 52 نہتے افراد کو  پھانسی دینے کے انداز میں قتل کیا گیا اور چھ عورتوں کو بھی یرغمال بنالیا گیا۔قاسم سلیمانی نے ذاتی طور پر اس قتل عام کے منصوبہ کی نگرانی کی۔حملے کے  بعد قاسم سلیمانی نے  ماہرین حکومت کی مجلس میں شرکت کی اور  اس قتل عام کو "انٹرنل لائٹ آپریشن  سے زیادہ اہم قرار دیا جس میں اس نے سن 1988 میں ایم ای کے کے خلاف ایک وسیع آپریشن کیا تھا جس کانام "انٹرنل لائٹ آپریشن تھا۔ اس وسیع آپریش سے پہلے ایم ای کے کی کامیاب تحریک نے تقربیا ایرانی دہشت گرد حکومت کو قریب ختم ہی کردیا تھا۔مجموعی طور پر 2009 سے 2016 تک عراق میں القدس فورس کے پراکسیوں نے قاسم سلیمانی کی سربراہی میں دہشت گردی کے حملوں میں ایم ای کے کے کے 141 ارکان کو ہلاک اور ہزاروں کو زخمی کردیا۔

قاسم سلیمانی کے جرم ملک سے باہر 

ایرانی جرنل قاسم سلیمانی پوری دنیا میں ایرانی حکومت اور اس کے پراکسی گروپوں کے تمام دہشت گرد حملوں کا انچارج تھا۔ اس نے صرف تھائی لینڈ ، نئی دہلی ، لاگوس اور نیروبی جیسے دور دراز مقامات پر 31 حملے کرنے کی کوشش کی سن 2011 تا 2012 تک۔ایرانی جرنل قاسم سلیمانی  دنیا بھر میں وحشی  خونی درندہ اور دوسرے ممالک کے خلاف جارحیت کی علامت سمجھاتا تھا۔۔

مشرق وسطی میں تمام شیعہ دہشت گرد تنظیمیں جس میں کاتعب حزب اللہ   آس’یب اہل الحق لبنانی حزب اللہ اور شام ، یمن ، بحرین ، اور… میں بہت سارے دوسرے گروپ سلیمانی کی سربراہی ہی میں کام کرتے تھے۔

قاسم سلیمانی کے آئی ای ڈی افغانستان اور عراق میں

  کو عراق اور افغانستان میں پھیلانے میں قاسم سلیمانی اور اس کے پراکسی  گرویپ کا IEDs ہاتھ تھا۔تباہ کن آئی ای ڈی جو  2003 تا 2011 کے درمیاں عراق میں جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر استعمال کیے گئے تھے جس کو جنگ کا نمبر ون قاتل بھی کہا جاتا ہے۔

اب تک 2003 تا 2011تک ایران کے ہاتھوں 608 امریکی فوجی بھی مارہے گئے۔"نیوز ویک کی رپورٹ  کے مطابق عام شہریوں کی ہلاکتیں اس سے الگ ہیں جو ہزاروں میں ہے جو سلیمانی کے  جرائم کو مزید واضح کرتے ہیں۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یوناما) کی ایک خصوصی رپورٹ میں  کہا گیا ہے۔

جنوری1 تا 30 ستمبر 2018 تک کے درمیان (آئی ای ڈی) سے وابستہ تشدد سے سےہوئی conflict-related violence  شہریوں کی تقربیاں نصف ہلاکتیں  ہیں 

جدید ترین(آئی ای دی) کو خفیہ طور پر القدس فورس کے حکم کے تحت ایرانی فوجی صنعت کی فیکٹریوں میں تیار کیا  جاتا  ہےجو پھرعراق اور افغانستان  منتقل کیا جاتا ہے جہان نہ صرف یہ جنگ کا حصہ بنتی ہیں بلکہ وہاں کی عوام کو بھی اس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔بعدازاں ایران کی فوجی فیکٹریوں نے ایک سے زیادہ طاقتور اور  دھماکہ خیز مواد سے بنا ہوامہلک بم بھی تیار کیا ہےجوسڑک کے کنارے نصب  کیا جاتا ہے  جس کو (ای ایف پی) کہا جاتا ہے۔

ایران میں مہلک بم بنانے کی  فیکٹری جہان مہلک بم بنا کردوسرے ممالک میں انتشار پھیلانے   کے لیے بھیجا جاتا ہے۔


ا فغانستان  اور عراق پر حملوں میں ایران نے امریکہ کی مدد کی کیونکہ ان دونوں کا اصلی  "دشمن" ایک  ہی ہے (سنی مسلمان)  ایران نے شیعہ ملیشاء کو حکم دیا کہ وہ افغانستان میں امریکی فوج کا بھرپور ساتھ دیے طالبان حکو مت اور القاعدہ کے خلاف جس کے چند دن بعد ہی طالبان حکومت کا خاتمہ ہوگیا جو ناممکن تھا امریکہ کے لیے بغیر ایرانی امداد کےسابقہ ایرانی وزیر اعظیم  محمدعلی ابطحی نے اس بات کا اقرار کیا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ جنگ طالبان کے خلاف پوری دنیا نے لڑی جس میں ایران سرفہرست   تھا۔

https://www.youtube.com/watch?v=KdF5aWC0yNc
 



عریش عزیزی اپنی کتاب  شیڈو کمانڈر کے صفحہ نمبر 148 و 149 پر لکھتا ہے کہ 9/11 کے بعد 19 دسمبر 2011 کو ایران نے القاعدہ کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جس کے بعد القاعدہ کے بڑے رہمنا الموریطانی نہ صرف ایرانی فوجی مہارت کی تعریف بلکہ ان کو پیش کش کی کہ وہ امریکہ کے خلاف ایک متحد اسلامست فرنٹ مل کر تشکیل دیں تاکہ القاعدہ اور ایران مل کر امریکہ سے جنگ کرہیں ساتھ انھون نے 9/11 کے حملے کی بھی مذمت کی جس کے بعد القدوس فورس اور القاعدہ کے قائدین کی نجی  ملاقات بھی ہوئی لیکن قاسم سیلمانی  نے اس تجویز کا صاف انکار کردیا اور القاعدہ کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس کے نزدیک اگر آج خمینی زندہ ہوتا تو وہ یقین طالبان کا مخالف ہوتا۔(جس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ قاسم سلیمانی کے نزدیک امریکہ اس کا جنگی اتحادی بن سکتا ہے لیکن کوئی سنی  تنظیم نہیں یہ ہی وجہ ہے کہ اس نے طالبان، القاعدہ اور الدولت اسلامیہ کے برعسک امر یکہ کو ترجعی دی۔  

ایرانی دہشت گردجرنل قاسم سلیمانی کے جنگی جرائم ملک شام میں

 ایرانی جرنل قاسم سلیمانی شام میں ہزاروں افراد کے قتل کا ذمہ دار بھی تھا سن 2012 میں جب شامیآمر بشارالاسد مشکل صورتحال سے دوچار ہو اور اس کی حکومت کا تختہ الٹنے والا تھا اور اس کی فوج بھی اس کے لئے لڑ نے تیارنہیں  تھی تب قاسم سلیمانی نے شامی آمر بشارالاسد کو بچانے کے لیے باسیج بریگیڈ  کو بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کے لیے بھیجا۔ اسی سال اگست میں شام کے اندر 48 ایرانیوں کو حراست میں لیا گیا  جن کو بعد میں القدس فورس کے ممبروں کے طور پر شناخت کیا گئا جو خود کو زائرین کہے رہے تھےاس ہی سال قاسم سلیمانی نے ایرانی حزب اللہ کے دہشت گردوں اور عراقی شیعہ ملیشیاء پر مشتمل غیر ملکی ملیشیاء  کو شام میں لانا شروع کیا۔ جبکہ  اس کا دوسرا کمانڈر ، جنرل حسین ہمدانی شام میں آباد تھا جو ایران سےبھاری اسلحہ شام  منتقل کیا کرتا تھا۔قاسم سلیمانی نے شام کے انٹیلیجنس آلات کے مختلف حصوں کو دوبارہ جوڑ دیا جس سے ایران کا شام میں اثر و رسوخ اس قدر بڑگیا کہ شام میں نہ صرف اصلی جنگ ایرانی ہی لڑرہا تھا بلکہ شامی سنی  آبادی کو شیعہ مذہب قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جارہا تھا۔ 

جرنل قاسم سلیمانی کے حکم پر اپریل 2013 کو حزب اللہ کے  2،000 جنگجوؤں نے آکر بشار الاسد کی حکومت کو مزید مضبوط کیا۔ٓآخر کار قاسم سلیمانی  نے القدس فورس کے زیر قیادت 80,000 سے زیادہ فوج شام بھیجی جس کو روس چین حزب اللہ اور دوسری شیعہ ملیشیاءکی بھرپور سپوٹ حاصل تھی۔جبکہ دوسری طرف قاسم سلیمانی امریکہ کے ساتھ مل کر الدولت اسلامیہ کے خلاف جنگ بھی لڑرہا تھا۔شامی آمر بشارالاسد کو اپنے ناگزیر خاتمے سے بچانے کے لیے قاسم سلیمانی نے نہ صرف اس کی مدد کی بلکہ اپنے سفاکانہ ہتھکنڈے استعمال کرکے شہروں اور دیہاتوں کو تباہ بھی کیا سنی اکثریت والے علاقوں میں۔  ملک شام میں  5لاکھ  مسلمانوں  کا قتل کرویا اور بار بار عرب ممالک کو  حملے کی دھمکی دی۔اگر قاسم سلیمانی 2015جولائی میں جاکر روس کے جوتے نہ چاٹا تو یقین آج شام بشارلاسد کے ناپاک وجود سے پاک ہوچکا ہوتا۔یاد رہے قاسم سلیمانی  نے 1982 میں حافظ الاسد کے حکم پر شامی مسلمانون کا قتل عام کیا تھا۔

شام میں 5 لاکھ اموات کا ذمہ دار ایران  کا جرنل قاسم سلیمانی : فائزہ ہاشمی رفسنجانی (سبائق  ایرانی صدر  : اکبر هاشمی رفسنجانی) 1989تا1997) کی بیٹی)

 

فائزہ ہاشمی رفسنجانی  کا  انٹرویو

ایران کے سابق اصلاح پسند صدر مرحوم علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کی صاحب زادی فائزہ ہاشمی رفسنجانی نے شام میں ایران کی مداخلت پر اپنی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شام میں پانچ لاکھ افراد کی اموات کا ذمہ دار ایران ہے۔ ایران کی شام میں مداخلت کی وجہ سے 5 لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے۔

ایران کی 'فارسی' نیوز ویب سائٹ' انصاف نیوز' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں فائزہ ہاشمی نے کہا کہ میرے والد نے پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو بار بار مشورہ دیا تھا کہ وہ شام میں مداخلت نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ علی اکبر ہاشمی رفسنجانی نے شروع دن سے ایرانی حکومت سے کہا تھا کہ وہ شام کے بحران میں مداخلت نہ کرے ورنہ وہاں‌ پر بہت زیادہ خون خرابہ ہوگا۔ ان کی بات نہیں مانی گئی۔ رفسنجانی نے جس خدشے کا اظہار کیا تھا وہی ہوا اور شام میں ایران کی مداخلت کی وجہ سے پانچ لاکھ افراد کی اموات ہوئیں۔

فائزہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ شام میں مداخلت سے قبل کمانڈر سلیمانی میرے والد کے پاس آئے اور شام میں ایرانی مداخلت کے بارے میں مشورہ مانگا۔ میرے والد نے انہیں کہا کہ وہ شام میں نہ جائیں۔ انہیں نے قاسم سلیمانی کو درست مشورہ دیا تھا مگر ان کی بات نہیں مانی گئی۔

فائزہ ہاشمی نے حکومت کی "مزاحمتی" پالیسی پر بھی تنقید کرتے ہوئے استفسار کیا کہ سلیمانی کے اقدامات اور ہماری مزاحمتی پالیسی نے کیا نتیجہ برآمد کیا؟ معیشت ، آزادی، اور خارجہ پالیسی کے شعبوں میں آپ نے ہمارے لیے کیا حاصل کیا؟ "مزاحمت کی پالیسی نے ہمارے لیے فخر کرنے کی کوئی چیز نہیں چھوڑی ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خطے میں ایران کی پالیسی نے ہمارے دوستوں کو دشمنوں میں تبدیل دیا۔ ہماری خارجہ پالیسی داخلہ پالیسی کی طرح ہوگئی ہے جہاں حامی ناقدین اور پھر نقاد مخالفین میں بدلتے جا رہے ہیں۔

اپنے والد سے منسوب ایک آڈیو ریکارڈنگ جس میں انہوں‌نے کیمیائی حملے پر شامی صدر بشارالاسد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انھونے کہا تھا کہ "اس شخص کو اپنے لوگوں پر بھی  ذرہ بھی رحم نہیں آیا ہے " مزید تبصرہ کرتے ہوئے فائزہ ہاشمی نے وضاحت کی' یہ آڈیو ریکارڈنگ درست ہے یا نہیں مگر اصول صحیح ہے۔ بشار الاسد کو ہماری طرف سے ملنے والی امداد کے نتیجے میں 5 لاکھ لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔

سابق ایرانی صدر کی بیٹی نے بھی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ شام میں ایران کی پالیسی دوہرے معیارپر مبنی ہے۔ اگر مسلمانوں کو قتل کرنا ایک بری بات ہے تو پھر ہمیں روس اور چین کے ساتھ مسئلہ کیوں نہیں ہے جو ایغوروں میں چینی مسلمانوں کا نہ صرف قتل عام کر رہا ہے بلکہ وہ ان کو ان کی مذہبی آزادی سے بھی روک رہا ہے۔

قاسم سلیمانی نے یمن کا امن کیسے برباد کرتے ہوئے حوثی باغیون کو سعودی عرب سے لڑویا۔

 پچهلی ایرانی حکومتوں نے کبھی بھی حوثی باغیون کو سنجیدہ نہیں لیا بلکہ ایرانیآئی آر جی سی کمانڈر نے ہمیشہ ہے حوثی باغیون کھلے عام ان پر طنز ہی کیا۔لیکن قاسم سلیمانی یہ جانتا تھا کہ ہماری مداخلت سے نہ صرف یمن کا امن برباد ہوگا بلکہ ہم یمن کے ذریعہ سے سعودی عرب کی  معیشت کو بھی باآسان برباد کرسکیں گے اور سعودی عرب کو ہم ایک بیکار  کی جنگ میں جھونک دیں گئے ۔جس کے لیے قاسم سلیمانی نے حوثی  قبائیلی  رسم و رواج کی  تعریف کی اور ان کو عزت کی  نظر سے دیکھا۔حوثی باغی کیونکہ اپنے مذہب اور سیاست کی سمجھ نہیں رکھتے تھے اس لیے قاسم سلیمانی کے حکم پر حزب باللہ اور عراقی  کمانڈرز نے حوثی  باغیون کی مذہبی اور سیاسی تربیت کی جبکہ حوثی باغیون نے ہر موقعے پر قاسم سلیمانی سے رہنمائی حاصل کی جس کے بعد حوثی باغیون نے ایرانی طرز کا شیعہ انقلاب یمن میں  لانے کی کوشش کی ایرانی خارجہ پالیسی بنانے والے پرانے ایرانی  بابے  قاسم سلیمانی کی اس پالیسی کے سخت مخالف تھے  کہ وہ کھلے عام  حوثی باغیون کو وہان کی حکومت اور سعودی عرب کے خلاف اسلحہ دئے رہا ہے۔

ستمبر 2014 کوجب یمن کے دارالحکومت صنعا پرحؤثی باغیون نے القدس فورس   کی مدد سے قبصہ کیا تو دنیا یہ دیکھ کر حیران رے گئی ایران نے تسلسل کے ساتھ حؤثی باغیون کی مدد کی جس کے بعد یمنی صدرعبد ربہ منصور ہادی کو سعودی عرب جا کر سعودی عرب کی مدد لینی پڑی۔قاسم سلیمانی  اپنے ایرانی فرقہ وارانہ ایجیڈے  کی تکمیل چاہتا تھا اس لیے اس نے حوثی باغیون کے سب سے بڑے حامی  اور سابق یمنی صدر علی عبد اللہ صالح کو بھی حوثی سپنر سے  دسمبر 2017 کو قتل کروادیا۔سابق یمنی صدر علی عبد اللہ صالح یہ جانچکے تھے کہ حوثی باغیون کا اصل مقصد یمنی آبادی کو ایران کے زیراثر لاکر یمن میں بھی ایرانی طرز کا انقلاب برپا کرنا ہے بندوق کی نوک پر اس لیے انھوں نے بل آخر تنگ آکر یو اے ای ا ور سعودی عرب سے مدد طلب کی جس کے بعد حوثی نے اپنے سابق اتحادی  کو قاسم سلیمانی کے براہ راست حکم پر قتل کردیا۔حوثی باغیون  نے جتنے بھی  مزائل سعودی عرب پر آج تک داغے وہ سب  کے سب ایران میں تیار کردا تھے۔تہران  کے پاس چار  دارالحکومت کا براہ راست چارج آچکا تھا جس میں (بیروت ، بغداد ، دمشق اور صنعا) شامل تھے۔یاد رہے قاسم  سلیمانی نے جون 2016 میں بحرین حکومت  کو بھی دھمکی دی تھا جب حکومت نے ایرانی دہشگردون کو بحرین میں پکڑ کر ان کے خلاف آپریش شروع کیا تھا۔  

عراق اور ایران میں  حکومتوں کے خلاف  آواز بلند کرنے والوں کا قتل عام

سن 2011 میں پہلے امریکی دستے کی واپسی کے بعد سابق ایرانی وزیر اعظم نوري كامل المالكي نے قاسم سلیمانی کے مشورے پر تمام سنی مسلمانوں کو عراقی  مرکزی حکومت سے نکال دیااور عراق میں شیعہ فرقہ وارانہ تشدد کو ترجعی دی اور اکثر کو کیمپ  بکا بھیج دیا۔یاد رہے یہ وہ ہی کیمپ بکا ہے جہاں امریکہ نے الدولت اسلامیہ کے سابق خلافہ ابوبکر البغدادی کو بھی قید کیا ہوا تھا۔ 

عراق میں 2019 میں بدامنی کے دوران  قاسم سلیمانی نے متعدد بار بغداد کا دورہ کیا اور ملک  میں جارہی حکومت مخالف  مظاہروں کو دبانے کے لیے حکومت کی  راہنمائی کی اور احتجاجی رہنماؤں کو نشانہ بناتے ہوئے ایک نیا مہلک حربہ اسنائپر اپنایا اور چھپ چھپ کر حکومت مخالف افراد کا قتل عام کیا  چھتوں  سےان اسناپرس نے احتجاج کے دوران 450 مظاہرین کو گولی ماردی جبکہ ہزاروں کو زخمی کردیا۔جبکہ مظاہرین نے ایرانی شناختی کارڈ کے ساتھ کچھ سپنر  بھی پکڑے۔جب نومبر میں پورے ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے تو حکومت نے بھی وہی مہلک حربہ استعمال کیا۔قاسم سلیمانی کی قیادت میں القدس فورس  سے وابستہ اسنائپروں نے 1،500 سے زیادہ مظاہرین جس میں زیادہ تر بیس سال کے نوجوان تھے چھتوں سے گولی مار کر ان کو قتل کردیا گیا۔ایرانی جرنل قاسم  سلیمانی عراق اور ایران میں اس طرح کی ہلاکتوں کا ماسٹر مائنڈ کہلایا جاتا تھا۔

قاسم سلیمانی کو الدولت اسلامیہ (داعش) کے خلاف ہیرہ بنانے کی ناکام ایرانی سازش


دی ویک مارچ ۲۰۱۵ کا شمارہ  جس میں امریکہ اور قاسم سلیمانی کو ایک بستر پر دیکھا ہے۔

ایران  اور اس کے  حواروں نے قاسم سلیمانی کے حوالہ سے یہ بات مشہور کررکھی ہے کہ اگر وہ اس جنگ میں نہ ہوتا تو یقین آج عراق اورشام میں الدولت اسلامیہ کا قبضہ ہو چکا ہوتا جبکہ حقیقت یہ ہے ایران کا کردار اس جنگ میں ایسا ہی تھا جسے کہ دوسری جنگ اعظیم میں فرانس  کا کردار اور اگراس کو بچانے کے لیے اتحادی اس کے حامی نہ ہوتے تو یقین جرمنی دوسری جنگ اعظیم جیت جاتا ایسے ہی اگر امریکہ عراق میں اور روس شام میں الدولت اسلامیہ اور دوسری  سنی تنظیموں کے خلاف نہ آتا تو آج بھی عراق اور شام  ان ہی تنظیموں کے قبضہ میں ہوتا۔دراصل ایرانی اپنےجرنل قاسم سلیمانی کو اس جنگ کا ہیرہ خیال کرتے ہوئے دنیا کو یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ آج الدولت اسلامیہ کو شکست  دینے میں سب سے اہم کردار سلیمانی کا تھا اور اگر وہ اس جنگ میں نہ ہوتا تو یقین الدولت اسلامیہ کو شکست دینا ناممکن تھا۔اس کے  برعکس  ویکی پدیا کے مطابق  الدولت اسلامیہ کے خلاف اس جنگ میں کتنے ممالک شامل تھے آپ خود دیکھ سکتے ہیں اگر امریکہ روس اور نیٹو مل کر ان شدت پسند تنظیموں پر  ہوائی بمباری نہ کرتی تو یقین ایران اگلے سو سال میں بھی ان تنظیمون پر غالب نہیں آسکتا تھا۔

الدولت اسلامیہ کو شکست 25 ممالک نے 13 تنظیمون کے ساتھ مل کر دی جس میں ایک ملک ایران بھی تھا۔


جو ایران  آٹھ سال تک صدام حسین کی کمزور حکومت کو ختم نہیں کرسکا  کہ جس کے بارے میں خمینی کہا کرتا تھا کہ مکہ کا راستہ بغداد سے ہوتے ہوئے گزارتا  ہے اور ہم صدام حسین کی طاغوتی  حکومت کو کیسی صورت برادشت نہیں کر ہیں گے  باوجود علی اکبر  رفسنجانی  کے سمجھانے کہ وہ ایو این ایس سی آر کی آمن پسند  جنگ بندی کی درخواست کو قبول کرلے ہرگز تیار نہ تھا۔جبکہ پورے ملک کا دیوالیا نکال چکا تھا  لیکن بعد میں خود خمینی  کو اپنی شکست تسلیم کرنی پڑ گئی  جو اس کے اپنے لیے ذلت کا سبب بنی۔عراق و شام میں جنگ کے لیے قاسم سلیمانی نے شیعہ دہشگرد افغانستان،پاکستان،عراق اور ایران  سے شامل کیے جس میں  "فاطمیون"  " زینبیون"  اور "حیدریوں"سرفہرست ہیں جو  سینکڑوں کی تعداد میں شام اور عراق میں مارے گئے۔جنوری 2019 میں جب ایک سنی گروپ نے ایرانی آئی ار جی سی کی بس پر حملہ زیدان کے علاقہ پرکیا جب قاسم سلیمانی نے پاکستانی حکومت کو سخت نتائج کی دھمکی دی.اس کے علاوہ بھی قاسم سلیمانی نے افریقہ کے ملک نائیجیریا میں ایک شیعہ دہشت گرد تنظیم اسلامیک  موومٹ این نائیجیریا  کا قائم رکھا جس کا مقصد  نائیجیریا  کی حکومت کو طاغوتی کہے کر وہان انتشار پھیلانا تھا

    قاسم سلیمانی کے یہ  چند جرائم ہیں  اس کے بہانک روپ کے پھیچے جو اس نے القدس فورس کے ساتھ مل کر 40 سال تک کسی نہ کسی طرح انجام دیئے۔قاسم سلیمانی کے شیطانی  سرمیوں  میں ایک سرگرمی میں اس نے سن 2011 میں واشنگٹن ڈی سی کے ایک مشہور ریستوراں کو اڑانے کے لئے میکسیکو ڈرگ کارٹیل کی خدمات حاصل کی جس میں سعودی سفیر کھانا کھا رہا تھے۔قاسم سلیمانی صرف عراق میں ایک لاکھ فوجوں پر مشتمل ملیشیاء کا کمانڈ تھا۔ جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں اس کے اثرو روسخ کا 



قاسم سلیمانی امریکی افواج کے ساتھ الدولت اسلامیہ کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے عراق میں یہ تھی دراصل ان کی امریکہ سے اصل دشمنی
 
قاسم سلیمانی کیون مارا گیا۔
اکتوبر ۲۰۱۹ کے شروع میں  عراقی ملیشیا  ءکے دو کمانڈروں اور دو سیکیورٹی ذرائع کے مطابق جنھوں نے رائٹرز کے عملے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایرانی میجر جنرل قاسم سلیمانی نے عراقی شیعہ ملیشیاء کے اتحادیوں کے ساتھ حکمت عملی میں تبدیلی پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے بغداد میں ملاقات کی۔حکمت عملی کی نئی توجی عراق میں امریکی افواج  کو نشانہ بنانا تھا جس سے وہ امریکی فوج کے مخالف ردوعل کو بھڑکانہ چاہتا تھا جس سے امریکہ کا روخ ایران سےعراق کی طرف کرنا تھا تاکہ ایران کو امریکی سیاسی دباو سے نکالا جاسکے.دوسری طرف امریکی افواج یقین اس کا ردعمل عراقی عوام پر دیکھے گئی اور ایران عراقی عوام  کو یہ سمجھائے گا کہ اس کا اصلی رہبر اور رہنما امریکہ نہیں بلکہ ایران ہے۔لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ امریکہ کو یہ سب باتیں پہلے سے معلوم تھیں۔7 دسمبر 2019 کوعراق کے صوبہ کرکوک میں کے ۱ فضائی بیس  جو عراقی اتحادی فوج کا اڈا تھاجہاں30 سے زیاددہ راکٹوں سے حملہ کیا گیا  جس سے ایک عراقی امریکی دفاعی ٹھیکیدار ہلاک ہوااور متعدد امریکی اور عراقی سروس ممبروں  زخمی بھی ہوئے جس کا الزام امریکہ نے کاتعیب حزب اللہ پر  لگایا۔اس سے پہلئ بھی قاسم سلیمانی نے 11 دفا عراقی امریکی بیس پر حملہ کرچکا تھا پچھلے دو ماہ میں ۔پیینٹاگون نے ان حملوں کا جائزہ لینے کے بعد قاسم سلیمانی کو ان حملوں کا  ماسٹر مائنڈ ہونے کا اعلان کیا۔جس کے بعد سابق امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ مشیرون سے ملاقات کے بعد قاسم سلیمانی کو مارنے کا فیصلہ کیا۔جب تک قاسم سلیمانی طالبان القدعدہ الدولت اسلامیہ کےخلاف جنگ لڑتا رہا اور سعودی عرب کو دھمکاتا رہے تب تک وہ امریکہ کی آنکھ کا تارا بنا رہے لیکن جیسے ہی اس نے امریکی مفاد کو  جھٹکا دیا ویسے ہی امریکہ نے اپنے  ہی دوست کو موت کے گھاٹ اتردیا۔قاسم سلیمانی یہ چاہتا تھا کہ طالبان ،صدام حسین اور الدولت اسلامیہ کی حکومتوں کو ختم کرکے وہ باآسانی امریکہ کو بھی مشرق وسطی سے نکال باہر کرئے گا اور اس کے بعد وہ ایران سے لے کر عرب تک اپنی حکومت قائم کرلئے گا لیکن وہ شاہد یہ نہیں جانتا تھا کہ  امریکہ اس کو اس حد تک کبھی نہیں جانے دے گا اور وہ اپنے ہی آقا کے ہاتھوں 3 جنوری 2020 کو 12:32 پر بغداد ائر پوٹ پرماراگیا۔

آخری الفاظ قاسم سلیمانی کے بارے میں

ایرانی جرنل قاسم سلیمانی بنیاد طور پر ایک شیطانی صفت مکار انسان تھا۔جس کی مکار کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک طرف امریکہ کو شیطان بزرگ کہا کرتا تھا اور امریکہ کے خلاف مرگ برامریکہ کے نعرے لگایا کرتا تھا لیکن دوسری طرف اس نےغیر متنازعہ طوراندازسے امریکہ کو سپوٹ کیا طالبان،صدام حسین، القدعدہ اور الدولت اسلامیہ کے خلاف امریکہ کا بھرپور ساتھ  خود قاسم سلیمانی کہا کرتا تھا کہ ہمارے لاکھ اختلافات صیحح لیکن جب بھی وہابیون  سے ہماری لڑی ہوگئی تو تم امریکہ کے حامی ہونگے یہاں وہابیون سے مرد اس کی سنی جنگجو اور عرب ممالک  تھے۔۔قاسم سلیمانی  کے خاتمے کے بعد مغرب میں کچھ لوگوں نے اسے "ایرانی عوام کے لئے ہیرو" یا "جنیش  جنگی حکمت عملی" کا ماہر کہا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سلیمانی نہ تو ایک ہیرو تھا اور نہ ہی "جنیش جنگی حکمت عملی"کاماہر تھا۔ وہ محض ایک ظالم قصائی تھا جو کٹتے ہوئے اور جلتے ہوئے بچوں پر کوئی رحم نہیں کرتا ہے اور ہمیشہ  شامی آمر بشارالاسد کے حملوں میں اس کی بھر پور تائید کیا کرتا تھا۔ وہ صرف اپنے مقصد کی قاطر بے گناہ افراد کو قتل کرواتااور  اپنے مقاصد حاصل کر نے کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتا تھا۔ شام اور عراق میں اس کی پراکسی ملیشیاء نے لاکھوں بے گناہ افراد کو شہید کرکے ہمیشہ ان کو اسرائیل ایجنٹ کہا اور القدس کے نام پرپیلیسٹینی عوام اور دوسرے مسلمانوں کو دھوکہ دیا۔تاکہ ایک طرف مسلمان ایران کو اپنی دوست سمجھ کر اسرائیل کو صرف اپنا دشمن سمجھین اور دوسری طرف ایران مسلمان حکومتون اور عام مسلمانون کا صفایا کرئے اور جو بھی مسلمان ملک ایران پر تنقد کرئے ایران اس کو فورا امریکی یا یہودی ایجنٹ بنا د یتا۔

 قاسم سلیمانی  شہریوں کو ان کے شہروں  و دیہاتوں میں قتل کروتا اوران کو بے گھر کرنے کے لئے  روایتی یا غیر روایتی ہتھیاروں کا استمعال ان پر کیا کرتا رہائشی علاقوں پر آتش گیر اور کلسٹر بم یا کیمیائی ہتھیاروں سمیت ہر قسم کا اسلحہ استعمال کرنااس کے لیے کوئی بڑاکام نہ تھا۔اس نے ہزاروں غیر تربیت یافتہ اور غریب عراقیوں ، افغانیوں اور پاکستانیوں کو شام کی جنگی محاذوں میں ان کے اہل خانہ سے رقم کا وعدہ کرکے ان کو موت کے منہ میں بھیجا صرف ہزارہ برادری کے 2000 سے زیادہ افراد شام اور عراق میں الدولت اسلامیہ اور دوسری تنظیمون کے ہاتھون مردار ہوئے۔

قاسم سلیمانی نے جنگی حکمت عملی کے حربے عراقی جنگ کے دوران سیکھے۔ جبکہ ایرانی حکومت اور آئی آر جی سی  کے کمانڈر  ہزاروں بچوں  کو بارودی سرنگوں کو صاف کرنے کے لئے بھیجتے رہے اور ہزاروں کم عمر بچوں کو کربلا میں حسین رض کے نام پر تیارکیا گیا کہ وہ جا کر عراق اور شامی جنگ کا ایندھن بن ہیں۔قاسم سلیمانی کی اس حکمت عملی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی نظر میں صرف اس کے شیطانی منصوبہ کی تکمیل تھی جس کے لیے وہ ہرجائزاور نا جائز حد کوعبور کرسکتا تھا۔  اس نے نہ صرف ہزاروں بلکہ لاکھون لوگون کا قتل عام کیا ۔ اس نے کھیتوں کو جلایا اور ہر اس چیز کو تباہ کردیا جو اس کی نظر میں عام افراد کے کام آسکتی تھی جیسے کہ ہسپتال بازار اسکول و غیرہ جس سےاندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک انسان نما درنددہ تھا۔قاسم سلیمانی کی ہلاقات کے بعد یقین القدس فورس کی طاقت میں کمی آئی جس کے بعد نہ صرف ایران اپنے زخموں کو دورہا ہے بلکہ ایران کی بدمعاشی میں بھی سخت کمی آئی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دورحکومت میں یہ واحد کارنامہ تھا جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔

شیعہ دہشگرد تنظیموں کا نام ا ور لوگو جن کا کفیل قاسم سلیمانی تھا


 

 قاسم سلیمانی کے بعد

ایرانی نژاد محقق کے مطابق سلیمانی کی عدم موجودگی نے خطے میں ایرانی ملیشیاؤں کے کام پر بہت اثر ڈالا۔ سلیمانی ان ملیشیاؤں کے درمیان رابطہ کاری کی ذاتی صلاحیت رکھتا تھا۔ سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے تہران کی پالیسی میں تبدیلی نمایاں طور پر سامنے آئی ہے۔ ماضی میں یہ پالیسی عزائم پر زیادہ سختی سے عمل درامد پر مبنی تھی تاہم سلیمانی کا جاں نشیں اسماعیل قاآنی اس کو جاری رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔

آرش عزیزی نے کہا کہ "اگرچہ خطے میں ایرانی نفوذ ایک شخصیت کے سبب قائم نہیں تھا تاہم اس کے باوجود سلیمانی کی ہلاکت کی صورت میں لگنے والی کاری ضرب سے یہ متاثر ہوا ہے"۔ عزیزی کے نزدیک سلیمانی کی ہلاکت سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ " تہران پر عائد پابندیوں کے سبب ایران اپنی ملیشیاؤں کی مادی مدد کرنے کے حوالے سے مفلوج ہو گیا۔ علاوہ ازیں عراق اور لبنان میں ایرانی نفوذ کے خلاف عوامی احتجاج اور تحریکیں سامنے آئیں"۔


از قلم فرید الدین انصاری


   


Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

History Of Drones Strike In Pakistan From (18 June 2004 To 5 July 2018)

پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی خفیہ تاریخ