پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی خفیہ تاریخ


 پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی خفیہ  تاریخ

قائد اعظیم کا اسرائیل کے بارے میں موقف
اسرائیل کے اولین وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون  اور  قائدا عظم محمد علی جناح

بانی پاکستان  محمد علی جناح ہمیشہ  سے آزاد  خود مختار فلسطین کے حامی تھے ۔اس لیے انہوں نے  ڈنکے کی چوٹ پر فرمایا کہ

اسرائیل کوبنا کر امت کے قلب میں خنجر گھسایا گیا ہے، یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔

ا یسے ہی آپ نے امریکہ پر شدید نکتہ جینی کرتے ہوا کہا کہ  یہ نہایت ہی بے ایمانی کا فیصلہ ہے  جس میں انصاف کا خون کیا گیا ہے۔

بانی پاکستان نے یہ بات سن ۱۹۳۷ میں ہی سمجھ گئے تھے کہ  اسرائیل کا نا پاک وجود بنا ہی صرف  تین وجویات کی بینا پر ہے  اسلئے آپ نے عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے ڈنٹ جاہیں اور کیسی ایک  اسرائیلی یہودی کو بھی فلسطین میں   گھسنے نہ دہیں  کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اسرائیل سب سے پہلے زمین عرب  پر قبضہ کررہے گا پھر مسلمانوں کا قاتل عام اور پھر بیت المقدس کی جگہ   ہیکل  سلیمانی جو اس کے لیے کعبہ کی   طرح اہمیت رکھتا ہے اس کی تعمیر کا کام شروع کررہے گا۔

تقسیم فلسطین  دراصل برطانیہ امریکہ اور   اقوام متحدہ کی  مشترکہ اور ظالمانہ  سازش تھی مسلمانوں کے خلاف جو  کامیابی کے ساتھ عمل میں لائی گئی ۔خلافت عثمانیہ  کے اختیام  کے بعد مسلمانوں کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں تھی جو برطانیہ امریکہ اوراقوام متحدہ  کے اس   ناجائز اور غیر منصفانہ فیصلے  اور ان کے   امتیازی سلوک کے خلاف اپنی قوت دیکھا سکے۔یہ بات ایک حقیقت ہے کہ خلافت عثمانیہ اور نازی افواج ایک طرف تھی اور دوسری طرف یہودیت اور عیسائیت کا ۤگٹھ جوڑ اس لیے برطانیہ نے سازش کرکے ایک طرف خلافت عثمانہ کو ختم کیا اور دوسری طرف ہر الزام ہٹلر پر ڈال کر اس کو دنیا کا سب سے بڑا قاتل ثابت کیا۔۔جس کے بعد اسرائیل کا نا پاک اور ناجائز وجود ایک کے بعد ایک فلسطینی  زمیں پر قابص ہوتا چلا گیا اور نیتجہ آج ہمارے سامنے ہے۔

Ref                                                                                                          

1) https://www.nawaiwaqt.com.pk/18-Aug-2020/1204540
2)https://dailyazadiquetta.com/2020/08/18/wadood-2/
3)https://bhakkarnetwork.com/2020/08/18/quaid-e-azam-called-israel-an-illegitimate-state/
4)http://albasirah.com/ur/index.php/dissertations/item/426-allama-iqbal-quaid-e-azam-and-palestine%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%D8%B1:%D8%B3%DB%8C%D8%AF5)Presidential address of Mohammed Ali Jinnah at the twenty-fifth MuslimLeague session in Lucknow in October 1937, in Pirzada, TheFoundationsofPakistan, vol.2, p.272.
6(https://pakonlinenews.com/article/%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-%D8%A7%D8%B9%D8%B8%D9%85-%DA%A9%D8%A7-%D9%86%D8%B8%D8%B1%DB%8C%DB%81/

 
پاکستان اور اسرائیل کے درمیان  پس پردہ تعلقات کی ٹائم لائن
 
1948
 میں سب سے پہلا رابطہ اسرائیل کی جانب سے آیا جب اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریان نے ٹیلی گرام کے ذریعے ایک خفیہ پیغام بانی پاکستان محمد علی جناح   کو بھیجا جس  میں ان سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں پوچھا گیا جس کا کوئی جواب  بانی پاکستان محمد علی جناح نے ان کو نہیں دیا۔
1949
میں  فلپائن ایئر لائنز دنیا کی واحد  ایئر لائنز بن گئی  جب اس نے کراچی اور 
 تل ابیب کے مابین  براہ راست ہوائی رابطہ قائم  کیا
1950
لندن میں پاکستانی سفیر اور اسرائیل  کی  یہودی تنظیموں کے نمائندوں کے مابین ابتدائی رابطہ ہوا  جس  میں کم از کم کھلے عام تجارت کوکھولنے کی کوشش کی گئی لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔
1955
 میں پاکستان نے اسرائیل  ہندونگ کانگرس سے خارج کرنے اور تیسری دنیا کے بلاک سے  اس کی علیحدگی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
1956
دسمبر 23 1956 میں اوٹاوا میں پاکستان اور اسرائیل کے سفارت کاروں کو دعوت دی گئی وزیز اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے  استقبالیہ کے اعزاز میں جس میں پاکستانی ہائی کمشز مرازعثمان علی بیگ کی ملاقات  اپنے ہم منصب اسرائیلی سفر سے ہوئی جس میں انہوں نے مصر کے خلاف اسرائیل فوج کی کامیابی پر ان کو مبارک باد دی ساتھ یہ بھی امید کی کہ ایک دن دونوں ممالک کے تعلقات بھی معمول پر آجاہیں گئے۔ اگلے برس مارچ میں پھر سے ایک بار پاکستانی ہائی کمشز مرزاعثمان علی بیگ نے اسرائیلی سفیر ایم ایس گومے سے بھی اسی نوعیت کے جذبات کا اظہارکیا۔
1967
مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی پائلٹ سیف الاعظم نے
تیسری عرب۔ اسرائیل جنگ کے دوران دو مختلف فضائی افواج یعنیٰ بھارت اور اسرائیل کے جنگی طیاروں کو تباہ کیا تھا۔یاد رہے  ان کے  پاس دو اعزاز ایسے جو
  کیسی دوسرے  پائلٹ کے پاس آج بھی نہیں ایک تو انہوں نے  چار مختلف ممالک کی فضایہ میں کام کیا جیسے پاکستان، اردن، عراق اور بنگلہ دیش دوسرا یہ کہ انہوں نے آج تک کی تاریخ میں سب سے زیادہ اسرائیلی طیاروں کو مار گرایا۔



افغان جنگ(1989 تا 1980 ) کے دوران  سی آئی اے ، ایم آئی16 آئی ایس آئی اور موساد   نے مل کر سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں آپریشن سائکلون  نامی ایک خفیہ آپریشن شروع کیا۔آپریشن کے دوران اسرائیل اور پاکستان نے اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے اعلی فوجی رابطے کیے جن میں مختلف فوجی معاملات شامل تھے۔ اس آپریش کے دوران اسرائیل نے  فلسطینیوں سے پکڑے گئے  سوویت ساختہ ہتھیار  بھی پاکستان کو منتقل کیے۔
صدر ریگن 1985 میں وائٹ ہاؤس میں افغان مجاہدین کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں

1981
میں اسرائیل نے  عراق کے اوصیرک جوہری ری ایکٹر پر حملہ کرکے اس  کو تباہ کردی جس کے بعد  اس نے ہندوستان کی مدد سے پاکستان  کے جوہری ری ایکٹر کہوٹہ پر بھی حملہ کرنے کا ناپاک   منصوبہ بنایا لیکن پاکستانی  انٹلیجنس  نے اس سازش کو ناکام بنادیا
1993
سابق وزیر اعظم  بے نظیر بھٹو نے اپنے دور کے  ڈائریکٹر جنرل ، پرویز مشرف  کے ساتھ مل کر  آئی ایس آئی اور  موساد کے درمیان رابطے میں شدت پیدا کی جس کے بعد بھٹو نے  نیویارک میں ایک  خفیہ ملاقات کی ا یک سینئر اسرائیلی سفیر کے ساتھ
1998
میں  پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کے بعد نواز شریف نے اپنے اسرائیلی ہم منصب بنجمن نیتن یاھو کو ایک خفیہ کورئیر بھیجا جس میں انھون نے کہا کہ   پاکستان ایران کے ساتھ اپنی جوہری ٹکنالوجی  کو شیر کرنے کا کوئی  ارادہ نہیں رکھتا ہے۔
 
1999
سابق پاکستانی وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے اسرائیل کے سابق وزیر خارجہ شمعون پیریز سے   یونیورسٹی  آف  کیلیفورنیا  برکلے  میں ملاقات کی    جس کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ  بینظیر بھٹو  دوبارہ  وزیر اعظم  بننے کی خواہش کی وجہ سے اسرائیل کے ذریعہ امریکہ کو خوش کرنا چاہتی تھیں اور یہ سمجھنا چاہتی تھی کہ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ اسرائیل کے لیے نرم کوشہ رکھیں گئی.
اسرائیل کے صدر شمعون پیریز نے بے نظیر بھٹو کے مرنے پر  کہا کہ   وہ ایک بہادر عورت تھیں جن انھون نے اپنے نظریات کو کبھی نہیں چھپایا وہ خوف نہیں جانتی تھیں اور ہمت کے ساتھ انھوں نے اپنے ملک کی خدمت کی۔

2003
 پا کستانی صدر پرویز مشرف نے اسرائیل کے ساتھ ممکنہ سفارتی تعلقات کی بحث کو اٹھایا

2005
 اگست 24  نیویارک میں امریکی یہودی کانگرس کی طرف سے دی جانے والی دعوت کو   صدر پرویز مشرف  قبول کیا
دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے پہلی بار باضابطہ بات چیت کی  تاہم  پرویز مشرف نے کہا کہ  پاکستان اس وقت تک اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کرے گا  جب تک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی ہے جس کا مطلب یہ تھا کے آزاد فلسطینی ریاست کے قائم کے بعد  آخر کار وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے گا۔
2010
غیر تصدیق شدہ روپوٹ  امریکی سفارتی کیبلز کے مطابق  ئی ایس آئی کے سربراہ ، لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے ممبئی ، دہشت گردی کے ممکنہ حملے ہونے کی  خفیہ اطلاع پر واشنگٹن کے راستے ، اسرائیل کو آگاہ کیا تھا کہ ممبئی  میں    اسرائیلیوں پر حملہ ہوسکتا ہے جس کے بعد اسرائیل نے ایک ٹریول ایڈوائزری جاری کی تھی کہ ہندوستان میں یہودی مقامات پر حملے ہوسکتے ہیں ۔
2011
میں اسرائیل پر الزام لگایا گیا کہ اس نے برطانوی فوجی ٹکنالوجی پاکستان کو برآمد کی۔
2012
میں برطانوی ۔پاکستان کے رکن پارلیمنٹ ساجد جاوید نے ایک تقریر کی جسے یہودی کرانکل نے بہت ہی مثبت انداز میں  شائع کیا یاد رہے یہودی کرانکل یہودیوں کا سب سے پرانا اخبار ہے

 
2015
 میں  ایک اسرائیلی سائنسدان رمزی سلیمان نے ، پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے زیر اہتمام لاہور میں منعقدہ ایک سائنسی کانفرنس میں شرکت کی
2016
میں پاکستانی پی ایچ ڈی اسکالر اور مصنف ملک شاہ رخ نے اسرائیل پاکستان دوستی گروپ شروع کیا ، جو دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کی مہم چلاتا ہے
.2016
 میں  ایران نے ایک جعلی خبر کو اپنی  70 ویب سائٹس پر عام کیا کہ  پاکستان کے وزیر دفاع نے اسرائیل کو ایٹمی  حملے کی دھمکی  دی جو بعد میں غلط ثابت ہوئی
2016
امریکہ کے  شہر نیواڈا میں   پاکستان اور اسرائیل   نے مشترکہ فضائی مشقیں کی
2017
میں ہندوستان کے سرکاری دورے کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ان تجاویز کو مسترد کردیا کہ ان کے ساتھ ہندوستان کی شراکت داری پاکستان کے لئے خطرہ ہے ، انہوں نے کہا ، "ہم (اسرائیل) پاکستان کے دشمن نہیں ہیں اور پاکستان کو بھی ہمارا دشمن نہیں ہونا چاہئے
2018
اسرائیل کے سب سے بڑے اخبار نے یہ قیاس کیا کہ ایک اسرائیلی مسافر طیارہ پاکستان میں اتراور دس گھنٹے تک اسلام آباد میں رہا۔
2018
میں پاکستان کے صدر عارف علوی  نے کہا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ   تعلقات استوار نہیں کر ہیں گئے
2020
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان  سفارتی تعلقات قائم کرنے کے  بعد  پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ان کا ملک اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک  اسرائیل فلسطین کو تسلیم نہیں کر لیتا ہے۔


یہ تو تھی  ان تعلقات کی کہانی  جو پچھلے 71 سالوں کے درمیان پاکستان اور اسرائیل کے ما بین رہی لیکن  درحقیقت اس کے پس پردہ بھی ایسے حقائق موجود ہیں جس کا ذکر کم ہی سنے کو ملتا ہے۔پاکستانی کے  پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان  ، جرنل ایوب،جرنل یحیی خان ،صدر ضیاء الحق ،صدر مشرف ،ہو  یا وزیر اعظم  ڈوالفقار علی بھٹو بے نظیر بھٹو ہو یا نواز شریف ہوں ان کے  دلوں میں اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رہا   ہے۔پاکستانی رہنما  اسرائیل منصبوں اور سفارت کاروں کے ساتھ غیر رسمی ملاقاتیں  ابتدا میں کرتے رہے کبھی واشگٹن،لندن یا اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر نیویارک میں۔ اس کے علاوہ بھی ان دونوں ممالک کے افسران رنگون کھٹمندو ٹوکیو لاگوس انقرہ تہران مراکش اوٹاوہ برسز روم میں ایک دوسرے سے مل چکے ہیں۔کیونکہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان خط و کتابت ممکن نہیں ہے اس لیے تیسرے ملک میں موجود اسرائیلی مشن کو بھیچا جاتا  رہا   مثلا نیو یارک  یا لندن وغیرہ۔  ایک اثر ورسوخ رکھنے والا  مشہور یہودی رہنما ایڈ منڈ ڈی روجھس چائلڈ  خاصہ  متحرک ماناجاتا  رہا ہے اسرائیل اور پاکستان کے تعلقات  قائم کرنے کی کوششوں کے حوالے سے ۔روایتی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے  پاکستان اور اسرائیل دونوں ایک  دوسرے کے   مخالف  بیانات   درپردہ دیتے رہے ہیں ۔  جس سے ان دونوں ممالک کے اندورنی تعلقات  دنیا سے اوجھل رہے۔  اسلامی تشخص  کی وجہ سے پاکستانی حکومتیں   ہمیشہ مجبوری رہی  ہیں کہ  وہ اس معاملہ میں عوام کو خوش رکھیں ۔ماضی  میں بھی  جب ستمبر 1970 میں اردن نے فلسطیوں کے خلاف کاروائی کی اور مصر کو دربارہ عرب لیگ میں لیا گیا تو پاکستان کے اقدامات اور پالیسیوں نے اسرائیل کو فائدہ پہنچایا 

Ref
 
7)https://web.archive.org/web/20101125165337/http://news.dawn.com/wps/wcm/connect/dawn-content-library/dawn/in-paper-magazine/encounter/how-safe-are-pakistans-nuclear-assets-420
8) https://tribune.com.pk/article/11990/why-israel-and-pakistan-can-never-be-allies-2
9) Moshe Yegar, "Pakistan and Israel", Jewish Political Studies Review 19:3–4 (Fall 2007)
10)https://worddisk.com/wiki/Pakistan-Israel_relations/
11)Farooq Naseem Bajwa, PakistanandtheWest:TheFirstDecade, 1947-1957, (Karachi: Oxford University Press, 1996), pp.162-202; and Burke, Pakistan’sForeignPolicy, pp.181-188.
12)Michael Brecher, IndiaandWorldPolitics: KrishnaMenon’sViewoftheWorld,(London: Oxford University Press, 1968), p.79.  In a similar incident on theeve of India’s partition the Muslim League boycotted the Asian RelationsConference organized by Nehru in April 1947. The official explanation wasthat he had invited a ten-member Jewish delegation from Palestine, led byProf. Hugo Bergman
13) M.S. Comay to Foreign Ministry, December 31, 1956, ISA, MFA, File no. 3110/19.
14) https://www.dhakatribune.com/bangladesh/2020/06/14/legendary-fighter-pilot-saiful-azam-dies-at-80
15)https://www.independenturdu.com/node/38681
16)https://mashriqtv.pk/2020/06/15/%D8%AA%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84%DB%8C-%D8%B7%DB%8C%D8%A7%D8%B1%DB%92-%D8%AA%D8%A8%D8%A7%DB%81-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%92-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3/
17)https://blogs.timesofisrael.com/pakistans-military-cooperation-with-israel/
18)Charlie Wilson's War: The Extraordinary Story of How the Wildest Man in Congress and a Rogue CIA Agent Changed the History of Our Times, by George Crile, Grove Press, 2007, Chapter 10
19)https://web.archive.org/web/20101125165337/http://news.dawn.com/wps/wcm/connect/dawn-content-library/dawn/in-paper-magazine/encounter/how-safe-are-pakistans-nuclear-assets-420
20) Levy, Adrian; Scott-Clark, Catherine. Deception: Pakistan, the US and the Global Weapons Conspiracy. Atlantic Books. ISBN 9781843545330
21)https://www.nytimes.com/1981/06/09/world/israeli-jets-destroy-iraqi-atomic-reactor-attack-condemned-us-arab-nations.html
22)https://crescent.icit-digital.org/articles/benazir-s-meeting-with-shimon-peres-raises-question-whose-agenda-is-she-following
23)Journalist and author George Crile's book, Charlie Wilson's War (Grove Press, New York, 2003)
24)https://www.smh.com.au/world/world-leaders-condemn-benazir-bhutto-killing-20071228-gdruq8.html
25) Journalist and author George Crile's book, Charlie Wilson's War (Grove Press, New York, 2003)
26)http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/3040632.stm
27)https://www.jpost.com/Defense/WikiLeaks-Pakistan-passed-terror-intel-to-Israel
28)http://old.paktribune.com/news/ISPR-denies-Israel-arming-Pakistan-with-hi-tech-gear-says-report-baseless-260779.html
29)https://www.business-standard.com/article/pti-stories/israel-denies-exporting-military-equipment-to-pakistan-113061200483_1.html
30)https://www.thejc.com/news/uk/muslim-tory-mp-after-britain-israel-is-best-1.39534
31)https://www.haaretz.com/.premium-israeli-lecturer-takes-part-in-pakistan-conference-1.5330432
32)https://nation.com.pk/04-Mar-2015/israeli-arab-lecturer-leaves-behind-multitude-of-questions
33)https://worddisk.com/wiki/Pakistan-Israel_relations/
34)https://www.timesofisrael.com/iran-duped-pakistan-into-israel-nuke-threat-as-tiny-part-of-huge-fakery-campaign/
35)https://warsclerotic.com/2018/12/01/iran-duped-pakistan-into-israel-nuke-threat-as-tiny-part-of-huge-fakery-campaign/
36)https://www.timesofisrael.com/pakistani-airbase-staff-confirm-private-jets-arrival-from-israel-report/
37)https://tribune.com.pk/story/1612753/1-pakistan-not-behave-like-enemy-towards-israel-israeli-pm-netanyahu
38)https://twitter.com/etribune/status/954285569248460800
39)https://www.middleeasteye.net/news/exclusive-airport-staff-say-israeli-plane-landed-pakistan
40)https://www.dawn.com/news/1441902
41)https://www.theweek.in/news/world/2018/10/28/pakistan-president-alvi-rules-out-establishing-ties-with-israel.html
42)https://indianexpress.com/article/pakistan/pakistan-president-arif-alvi-rules-out-establishing-any-kind-of-ties-with-israel-5422049/
43)https://www.wsj.com/articles/israel-and-u-a-e-get-down-to-business-11598035520
44)https://www.thehindu.com/news/international/pakistan-rejects-any-possibility-of-diplomatic-ties-with-israel/article32396954.ece۔

45)کتاب  پاکستان اسرائیل تعلقات کی پس پردہ کہانی  صفحہ نمبر ۸،۹ تالیف  پی آر کمار سوامی

پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات  اور تنازعات

ظفر اللہ خان 

 بلاشبہ ظفر اللہ خان تقسیم کے منصوبے کے زبردست مخالف بن کر ابھرے  جس کے بارے میں ایک اسرائیل افسر نے کہا تھا کےبلاشبہ وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والاے ایک قابل ترین انسان  اور پر اثر شخصیت ہیں لیکن اس کے باوجود   ان کے موقف میں واضح بندیلیاں آئی اور وہ اس بات کے قائل ہو چکے تھے کہ تقسیم ہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے جس کا اظہار قدامت پسند اریل معائید نے کیا جو خفیہ تنظیم کے لیے کام کررہا تھا۔ بلکہ انہوں نے  عرب رہمناوں کو بھی اس حوالے سے قائل کرنے کی کوشش کی۔
ایسے ہی فروری 1952 میں مصر کے سرکاری دورے کے دوران پاکستان وزیز خارجہ نے  اعلان کیا کہ اسرائیل مشرق وسطی کا دھڑ ہے ایبا ایبا اور گڈان رافیل  جنوری 1952 کو وزیز خارجہ ظفر اللہ خان سے نیویارک میں ملے  اور پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے مسئلہ پر گفتگو ہوئی جس میں ظفر اللہ خان نے اس بات کا اظہار کیا کہ یہ حکومت سابقہ حکومت کے موقف سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔ظفراللہ خان کی اپنے ہی عوام کی طرف سے بر  پور مخالف کے بعد اسرائیل نے ان سے متواتر رابطہ نہ رکھا۔یاد رہے طفراللہ خان  قادیانی تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو
 
دوسری اسلامی سربراہی کانفرس  میں ذولفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ یہودی اگر یہودیت پر قائم ہیں تو ہمارے رویے کو دوستانہ پائیں گئے مگر یہودی اگر صہیونیت پر کاربند ہیں جو عسکریت پسند پر مبنی ہے تو اس کے لیے ہمارے رویے میں کسی قسم کا تحمل نہیں ہے۔ بھٹو نے 1974 میں  طوفانی تقریر کرنے ہوئے  مسلم ممالک سے کہا تھا کہ  بیت المقدس پر اسرائیلی تسلط کے حوالے سے کیسی بھی  تجویز اور معاہدہ ان کے نزدیک ایک کاغدیزی  بات سے زیادہ نہ ہوگا۔لیکن اس کے سابقہ ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ  اس تصویر کا ایک اور رخ بھی سامنے  نظر آتا ہے۔ یہ بات ستمبر 1957 کی ہے جب فیروز خان  کی سربراہی میں جانے والے  وفد میں وہ شامل تھے۔ پھر اگلے برس  جینوا میں ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرس میں وہ پاکستانی وفد کے چیر مین بنادئے گئے۔جہاں پر ان کی ملاقات اپنے اسرائیلی ہم منصب شبتائی روزمے سے ہوئی جن سے ان کی یہ پہلی ملاقات نہیں تھی  کیونکہ بھٹو گاڈفرمےڈیوس کو جانتے تھے جو روزمے کی والدہ کے کزن تھے  تقسیم ہند سے پہلے  وہ سندھ ہائی کورٹ میں چیف حج  بھی ر ہے چکے تھے۔روزمے کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں ان کا خیال تھاکہ یہ ایک سیاسی حقیقت ہےاور پاکستان کے مفاد میں کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے۔تاہم  انہوں نےظفر اللہ خان کی کوششوں  کی بھی تعریف کی ا س معاملہ کو حل کرنے کے لیے لیکن ان کے سامنے کشمیر کا مسئلہ  عوامی ردعمل اور عرب کی ناراضگی کا خوف تھا۔
 
جرنل ضیاء الحق

جرنل ضیاء الحق برطانوی فوج میں افسر تھے اور دوسری جنگ عظیم میں   برطانیہ کے لیے لڑے تھے۔جزل ضیاءالحق نے 1981 میں بیان دیا کہ  پاکستان اسرائیل  کی طرح ایک نظریاتی ریاست ہے اگر یہودیت کو اسرئیل سے نکال دیا جائے تو وہ ایک ردی خانہ بن جاتا ہے ایسے ہی اگر پاکستان سے اسلام کو نکال دیا جائے تو پاکستان بھی  ایک سیکولر ریاست بن جائے گا۔مارچ 1986 میں  انہوں نے فلسطین کی تحریک  آزادی کی   تنظیم  پی ایل او سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔1970 میں فلسطینوں کی بغاوت کچلنے کے لیے   ایک تربیتی مشن اردن بھیجا گیا جب  آپ برگیڈئیر تھے۔شاہ حسین  کو یہ   خطرہ لاحق تھا کہ کہیں فلسطینی دریائے اردن کے مغربی کنارے کو آزاد فلسطینی ریاست نہ بنا لیں کیونکہ اس وقت فلسطین کی آبادی اردون میں 400000 تھی جو اردون کی آبادی کا  ایک تہائی بنتا تھا۔جس کے بعد  تمبر 1970ء کو برگیڈئیر ضیا الحق کی در پردہ قیادت میں اردنی فوج نے فلسطینیوں پر حملہ کیا اور انہیں اردن سے باہر کر دیا، اردن فلسطینیوں کے دباؤ میں سے نکل آیا اوراسرائیل پر سے بڑا خطرہ ٹل گیا  اس آپریش میں تقربیا   5000 تا 7000  فلسطینی ہلاک ہوئے جبکہ یاسر عرفات  کے مطابق 25000 فلسطینی مارہے گئے جس کے بعد اسرائیلی جنرل موشے دایان نے شاہ حسین کو  ایک نوٹ بھیجا جس میں  اس نے کہا کہ
شاہ حسین نے گیارہ دنوں میں  اتنے فلسطینی مار ڈالے کہ جتنے فلسطینی اسرائیل 20 سالوں میں مارسکتے ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظیم رابن اسحاق کے قتل کے بعد1995 میں پاکستان کی پوزیش تبدیل نظر آئی  اور پاکستان نے بھی عرب ممالک کی   طرح قتل کی مذمت کرتے ہوئے یہ موقف اپناکہ  ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں یاد رہے اس قتل میں  یہودی انتہا پسند ملوث تھے۔

دی نیوز اور  ہلالی ، اے زیڈ  کی کتاب میں  کہا گیا ہے کہ  اسرائیل نےافغان مجاہدین کو ہتھیار اور تربیت فراہم  کیا جو روس کی حامی افغانی افواج سے لڑرہے تھے۔ جس میں ہزاروں مجاہدین جنگجو   کا تعلق  حزب اسلامی سے تھا جس  کے رہنما گلبدین حکمت یار تھے۔ آئی ایس آئی ایجنسی کے سربراہ اختر عبد الرحمن نے بظاہر اسرائیلی ٹرینرز کو اپنے ملک میں جانے کی اجازت دی۔دی ینوی پاکستان کے مطابق پاکستانی قومی ائیر لائن  پی آئی اے نے اسرائیلی سرکاری جہاز رانی کی صنعت سے مختلف پرزہ جات حاصل کیے۔پاکستان اور اسرائیل کے  سرکاری اداروں کے درمیان ایک ملین  ڈالر لاگت کے اس معاہدہ کو سرکاری کہا جاسکتا ہے۔
 
Ref
 
46)Shabtai Rosenne to the Foreign Office, ISA, MFA, File no. 3110/19. Emphasisadded. This type of public approval and private criticism of Zafrulla Khan’sstand is not confined to the Palestine question alone. He played an importantrole in Pakistan joining the US camp during the Cold War, yet many Pakistanicommentators  and  leaders  subsequently  criticized  him  for  committingPakistan to CENTO against the expressed wishes of the cabinet
47) Summary of the meeting between Abba Eban and Gideon Rafael with SirZafrulla  Khan,  January  14,  1953,  DocumentsontheForeignPolicyofIsrael,1953, vol.8, pp.26-28 and Companion Volume 8, pp.17-1
48)  Chaim Weizmann to Sir Zafrulla Khan, January 4, 1948, inTheLettersandPapersofChaimWeizmann, SeriesA, (Jerusalem: Israel Universities Press, 1979)vol.23, p.75.48.   Ibid. Interestingly, during the pre-state years none of the leading figures ofthe  Zionist  movement  met  their  counterparts  in  the  Indian  nationalistmovement
49) Walter Eytan to Abba Eban, September 20, 1953, DocumentsontheForeignPolicyofIsrael 1953, vol.8, p.667. Emphasis added
50)https://www.nawaiwaqt.com.pk/22-Feb-2009/105477
51)https://dailypakistan.com.pk/03-Jan-2015/179397
52)Shabtai Rosenne to the Foreign Office, ISA, MFA, File no. 3110/19. Emphasisadded. This type of public approval and private criticism of Zafrulla Khan’sstand is not confined to the Palestine question alone. He played an importantrole in Pakistan joining the US camp during the Cold War, yet many Pakistanicommentators  and  leaders  subsequently  criticized  him  for  committingPakistan to CENTO against the expressed wishes of the cabinet
53)http://drshabirchoudhry.blogspot.com/2016/03/black-september-role-of-pakistans.html
54)https://www.dawn.com/news/1027023
55)https://blogs.timesofisrael.com/pakistans-military-cooperation-with-israel/
56)Radio  Pakistan,  November  6,  1995,  FBIS-NES-95-215-S,  November  7,  1995,p.13
57)The  News,  September  14,  1995,  in  FBIS-NES-95-179,  September  15,  1995,pp.84-85
58) Hilali, A. Z. US-Pakistan Relationship: Soviet Invasion of Afghanistan. Aldershot: Ashgate, 2005. p. 124

 
 بھارت اور اسرائیل کا منصوبہ پاکستان کے خلاف

1983
 میں اسرائیلی وزیر دفاع ایرایل شیرون نے تجویز کیا تھا کہ بھارت اور اسرائیل مل کر پاکستان کی جوہری تنصبات کو نشانہ بنا  ہیں گئے  لیکن اس  تجویز کے لیے اسرائیل کو بھارت کے مکمل تعاون کی ضرورت تھی لیکن بھارت ائیر فررس کو اس حملے سے خطرہ تھا جس کی وجہ سے اسرائیل اور بھارت کا یہ ناپاک منصوبہ  بغیرتکمل کے زمین بوس ہوگیا۔ جولائی 1988 کو ایک پاکستانی تجزیہ نگار نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت چاہتا تھا کہ پاکستان پر اسرائیل حملہ کرئے جبکہ اسرائیل کا مطالبہ  تھا کہ اس حملے میں بھارت بھی اس کا ساتھ دے۔اکیلے حملہ کرنے سے اسرائیل نے انکار کردیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1980 کے وسط میں جب روس اور مجاہدین کا  فرنٹیئر جنگ سے گرم تھا تو وزیر دفاع ایل شیرون کے قر یبی معاون اسلام آباد آئے تھے اور انہون نے آکر پاکستان میں  پائی جانے والی اس تشویش کو ختم کردیا تھا۔ دسمبر 1998 میں آئی ایس آئی کے سبابق چیف حمید گل نے بتایا کہ جولائی 1988 میں اسلام آباد میں ایک سنیر امریکی سفارت کار اسرائیل کے لیے جاسوسی کرتے پایا گیا۔ ایسے ہی امریکی سفیر تھا مس سائمن نے پاکستان کے جوہری تجربات کے بعد کہوٹہ پر اسرائیلی حملے کے امکان کا خدشہ ظاہر کیا جس کے بعد اسرائیل نے امریکہ کے ذریعے یہ یقین دہانی کرئی کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی قسم کے جارحانہ عزائم نہیں رکھتا

اس و قت کے پاکستانی وزیر خارجہ گوہر ایوب خان جو جرنل  ایوب خان کے بیٹے تھے انھون نے یہ صاف اعلان  کیا تھا کہ  پاکستان اپنے نیوکلیائی بم کو اسلام یا مشرق وسطی کے تناظر میں استعمال  نہیں کررہے گا۔ایسے ہی نواز شریف کے قربیی ساتھی  اور  سابق صدر پرویز مشرف کے سابق   سینیٹر مشاہد حسین  نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نواز شریف نے یہ بات واضح کردی ہے کہ ہمارے بم کی بنیاد نہ مذہبی ہے اور نہ اس بم کو اسلامی بم کہنا قانونی ہے بلکہ یہ بات ہی غیر حقیقی اور غیر اخلاقی ہے۔

پاکستان  ہمیشہ اس بات کی تردید کرتا رہا ہے کہ  کبھی بھی  پاکستان اور اسرائیل کے درمیان با ضابطہ تعلقات  کا موضوع رہا ہے جس کی اصل وجہ  اندرونی  دباو ہے اور مسئلہ کی نزاکت  بھی۔۔ 1993 میں اوسلو معاہدے اور  پی ایل او ر اسرائیل کا ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے باوجود پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جبکہ اس وقت کے وزیر اعظیم  معین قریشی نے صاف کہے دیا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے ایسے ہی امور خارجہ کے پالیمانی کمیٹی کے سربراہ این ڈی خان نے ممبران کو بتایا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ  نہیں رکھتا ہے۔  وزیر خارجہ آصف احمد علی  نے قومی اسمبلی کو یقین دلایا کہ  پاکستان اسرائیل کو کیسی قیمت پر قبول نہیں کررہے گا۔ اگلے ہی سال امریکی معاون رابن رافیل نے انکشاف کیا کہ واشنگٹن پاکستان سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کی  ناکام کوشش کر چکا ہے۔جو ن 1996 میں وزیر خارجہ آصف احمد علی   کہا کہ اسرائیل نے کوشش کی تھی پاکستان   سے مسائل کے حل   کے لیے لیکن پاکستان نے اس سے انکار کردیا۔ اکتوبر 1998 میں  بقول اسرائیلی میڈیا کہ  صدر آےئینر وائز نے اپنے ہم منصب  پاکستانی صدر رفق تارڑ سےا یک تقریب کے دوران ہاتھ ملایا اور کہامیں نے آپ کے متعلق سنا ہے کہ آپ امن کے داعی ہیں۔ستمبر 1997 کو نواز شریف کے ایک دوست  کی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں تجویز دینے پر  پی پی پی کا موقف یہ تھا کہ آپ کیسے اسرائیل کو تسلیم کرسکتے ہیں  اس کا فیصلہ او آئی سی کو کرنا ہوگا لہذا امت مسلمہ کو اس فیصلے کو تسلیم کرنےکا پابندی ہونا چاہیئے۔
 
 جمعیت علما ئے  اسلام   کے مولانا اجمل قادری جو اب  جماعت کے مرکزی سرپرست  اعلی بھی ہیں    جو سعودی  اسلامی  ملڑی  الائنس کے خلاف بھی تھے اسرائیل کے دورے پر گئے تھے اس دورے کی واپسی  پر انہوں نے کہا کہ فلسطین کے وسیع تر مفاد میں  کہا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں  یاد رہے آج یہ ہی جماعت عمران خان کو یہودیوں کا  ایجنٹ بھی کہتی ہے ۔ آج سے   پانچ دن قبل  کامران خان کےشو میں  عمران خان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ یاد رہے مولانا اجمل قادری کے اس بیان کا کوئی فوری ردعمل نہیں آیا   کیسی بھی جانب سے جس کے بعد بریلوی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایک پیر محمد اشرف  نے بھی ایسے ہی خیالات کی   حما یت  کی۔۔  1997 میں عوامی قیادت پارٹی  کے سربراہ اسلم بیگ نے بیان دیا کہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ بر راہ راست اختلافات  نہیں ہے ہم تنازع میں تیسرے فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہذا ہمیں اسرائیل کو تسلیم کر  نے میں کسی قسم کی ہچکچا ہٹ نہیں ہو نی چاہیئے
 
اسرائیل کے سابق وزیر خارجہ سیلون شالوم نے 2 فروری 2005 کو اس وقت کے وزیرخارجہ خورشید قصوری سے ملاقات کی جس مین انہون نے پاکستان کو یقین   دہانی کروائی کہ اسرائیلی کبھی بھی پاکستان کے جو ہری اثاثے ختم کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ کبھی بھی  کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔سیلون شالوم اور خورشید قصوری کی ملاقات کے بعد جنرل پرویز مشرف اور اسرائیل کے صدر ایریل شیرون کی تاریخی ملاقات 14 ستمبر 2005 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی عمارت میں ہوئی تھی۔مشرف اور شیرون کی ملاقات کے بعد سیلون شالام نے ڈان سے بات کی تھی جو پاکستان کے کسی صحافتی ادارے کو اسرائیلی رہنما کا پہلا باضابطہ انٹرویو تھا۔صدر پرویز مشرف بے شمار فلسطینیوں کے قاتل قرار دیئے جانے والے اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایرئیل شیرون کے مداح نکلے ہیں۔ پرویز مشرف نے ایرئیل شیرون کو عظیم فوجی رہنماءقرار دیا اور کہا کہ میں ان کی صلاحیتوں کو سراہتا ہوں جنہوں نے ناقابل فراموش کامیابیاں حاصل کیں۔ مشرف  کا یہ بھی خیال تھا کہ اگر ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوط کر لیں تو یقین بھارت کمزور  پڑھ جائے گا۔یاد رہے   وزیراعظم ایرئیل شیرون  وہ ظالم انسان ہے کہ جس کے مرنے پر فلسطین کی عوام نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ وہ ان کے ہاتھوں سے کیوں نہیں قاتل ہوا  وزیراعظم ایرئیل شیرون  تقربیا  ۸ سال کومہ میں رہنے کے بعد مردار ہوا۔
 
 
Ref 
 
59)The News, September 14, 1995, in FBIS-NES-95-179, September 15, 1995, p.84.For a critical view see, “Why should there be commercial ties with Israel?”,Khabrain, September 15, 1995, in FBIS-NES-95-179, September 15, 1995, p.85
60)Beyond the Veil: Israel-Pakistan Relations by P. R. Kumaraswamy pg # 45
61)Israel  Shahak,  OpenSecrets: IsraeliForeignandNuclearPolicies,  (London:Pluto, 1997), p.32.
62)https://storyofpakistan.com/general-muhammad-zia-ul-haq/
63)TheEconomist, December 12, 1981
64)At  that  time  the  Israel  government  was  committed  to  non-recognition  ofthe  PLO  and  hence  Zia’s  statement  did  not  elicit  any  favorable  responsefrom Israel. TheJerusalemPost, March 16, 1986.۔
65)Gohar Ayub Khan’s interview to La Repubblica, June 10, 1998, in SWB/FE/3251, June 12, 1998, p.A/6.
66)Mushahid Hussain and Akmal Hussain, Pakistan: ProblemsofGovernance,(New Delhi: Konark, 1994), p.33
67)Pakistan Television, September 14, 1993, in FBIS-NES-93-177, September 15,1993, p.57.Radio Pakistan, January 30, 1994, in FBIS-NES-94-022, February 2, 1994, p.57.
68)The Muslim, May 12, 1994, in FBIS-NES-94-092, May 12, 1994, pp.55-56
69)The News, December 10, 1995, in FBIS-NES-95-237, December 11, 1995, p.95.
70)Ibid., p.94. The Israeli media has been making similar suggestions sinceearly September 1993. Among others see, David Makovsky, “US: Deal willhelp Israel with Moslem countries”, TheJerusalemPost, September 7, 1993.See also TheJerusalemPost, September 26, 1993۔
71)Yedioth  Ahronoth,  October  30,  1998,  in  SWB/FE/3373,  November  2,  1998,p.A/7.
72) Zaigham Khan, “Shalom Maulvi”, TheHerald, July 1997, p.19
73)Beyond the veil Israel and Pakistan relations by P. R. Kumaraswamy pg 54
74)https://mfa.gov.il/mfa/pressroom/2005/pages/statement%20by%20fm%20shalom%20after%20meeting%20with%20pakistan%20fm%20kasuri%201-sep-2005.aspx
75)https://www.dawn.com/news/1442182
76)https://timesofislamabad.com/07-Dec-2015/pakistan-ex-foreign-minister-khurshid-kasuri-admits-visiting-israel-for-nuclear-deal-purpose
77)https://www.voanews.com/archive/musharraf-praises-sharon-courageous
78)https://www.ynetnews.com/articles/0,7340,L-3139835,00.html

 
نتیجہ 
 
پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی پس پردہ کہانی اور پاکستان اسرائیل کو قبول کیوں نہیں کرتا۔  اسرائیل کی فلسطین پر قبضہ کے دن سے شروع ہوتی ہے جس میں   پاکستانی حکمتوں کا  عوامی سطح پر  موقف ہمیشہ سے  فلسطین کے حق پر رہا ہے اور انہون نے اسرائیل کے ناپاک وجود کو تسلیم کرنے سےانکار  پرہی زور دیا۔ جس کی دو بڑی وجوہات تھی ایک عوام کا  زور دار دباؤ اور دوسرا مسلم امہ  کے ان کا کھڑا ہونا  لیکن اس کے باوجود  وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ  اسرائیل کو بھارت سے الگ کیا  جائے جس کے لیے ان کو اسرائیل کی حمایت کی ضرورت تھی۔ کیونکہ ان کو ایک یہ بھی خطرہ تھا کہ کہیں اسرائیل بھارت کے ساتھ مل کر اس کے جوہری پروگرام کو نشانہ نہ بنا ڈالے  جیسے اسرائیل عراقی  تنصیبات کو نشان بنا چکا تھا۔پاکستان میں  آنے والی ہر حکومت اسرائیلی  پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے لیکن اس کے باوجود کسی نہ کسی سطح پر پاکستان اور اسرائیل   انٹیلیجنس ایجنسیاں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہے جس کی ایک اعلی   مثال روس اور افغان جنگ بھی ہے۔ پاکستان اور اسرائیل دونوں کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ وہ دونوں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عمل پیرا ہیں ساتھ یہ دونوں ممالک امریکہ کے اتحادی بھی ہیں۔ پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات  کا پس منظر ہمیشہ سے خفیہ رہا ہے۔ حال ہی میں یو اے ای کے اسرائیل سے تعلقات جوڑ نے کے بعد  سعودی عرب اور پاکستان دونوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے صاف انکار کردیا۔۔جبکہ پاکستانی حکمران یہ بات جانتے ہین کہ اسرائیل کو خوش کرنا درحقیقت امریکہ کو خو ش کرنا ہے جس کے لیے انھون نے تھوڑی بہت کوششیں بھی کی لیکن انکو فورا اندازہ ہوگیا کہ وہ اپنے اس  مشن میں کامیاب نہین ہونگے بلکہ الٹا ان کو اپنی حکومت سے ہاتھ دونا پڑھ سکتا ہے۔اس لیے ان تعلقات کو ہمیشہ پس پردہ ہی رکھا گیا۔آپ کو یہ بات بھی معلوم ہو نی چاہیئے کہ قائد اعظم کسی صورت بھی اسرائیل کو تسلیم  نہیں کرنا چاہیئے تھے۔ جبکہ 1967 کے بعد جہان عرب کا موقف اسرائیل کے بارے میں تبدیل ہوا وہان ہی پاکستان نے بھی دو ریاستی حل پر زور دیا یعنی فلسطین اور اسرائیل کو دو الگ الگ ملک تسلیم کیا جائے گا  لیکن اسرائیل اس پر راضی نہ ہوا۔جس کا اظہار خود عمران خان نے بھی کیا کہ ہم جب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرہیں گئے جب تک وہ  فلسطین کو مکمل آزادی نہیں دے دیتا ہے یعنی اگر کل کو فلسطین آزاد ریاست بن جاتا ہے تو پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے  












از قلم فرید الدین انصاری 







 





 

 

 


 

Comments

Popular posts from this blog

History Of Drones Strike In Pakistan From (18 June 2004 To 5 July 2018)

ایرانی جرنل قاسم سلیمانی ایک خونی درندہ