"شیعہ سنی مفاہمت کی ضرورت و اہمیت ڈاکڑ اسرار احمد کے افکار و نظریات پر تنقیدی نقطہ نظر

 



                            ڈاکٹر اسرار احمد کے بارے میں                                          
ڈاکڑ اسرار احمد ۲۶ اپریل سن ۱۹۳۲ میں پنچاب کے شہر حصار میں پیدا ہوئے جو اب بھارت کا حصہ ہے۔آپ کی تعلیمی قابلیت ایم۔بی۔بی۔ایس اور ایم۔اے تھی۔آپ عالم دین اور فلسفی بھی تھے۔آپ تنظیم اسلامی کے بانی  ہیں جو جماعتِ اسلامی  کی ہی ایک آف شور جماعت ہے جس کا  حتمی مقصد خلافت  کا نظام قائم کرنا ہے۔
 
ڈاکٹر اسرار احمد کے عقائد

ڈاکڑ صاحب عقائد کے اعتبار سے  مسلک اہل حدیث سے تعلق رکھتے تھے، اور  ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے فیض یافتہ تھے۔ بعض لوگ ڈاکٹر اسرار احمد  کو  مسلک دیوبند سے بھی سمجھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔

ڈاکٹر اسرار احمد کی کتابیں

ڈاکڑ اسرارا حمد نے تقربیان ۶۰ کتابیں تحریر کی  جس  میں سے کئی ایک کا ترجمہ   انگریزی زبان میں بھی ہوا۔ڈاکڑ اسرار احمد کی تفسیر بیان القرآن کے نام سے مشہور ہے ۔

ڈاکڑ اسرار احمد کا انتقال ۱۴ اپریل ۲۰۱۰ کو۷۸ سال کی عمر میں ہوا

 ڈاکڑ اسرار احمد  کی کتاب  شیعہ سنی مفاہمت کی ضرورت و اہمیت  پر ایک تنقیدی نظر

ڈھائ یا تین سال قبل ایک معزز امام مسجد کی اجازت سے ایک کتابچہ پڑھنے کے لیے مانگا تو انھوں نے مجھے بطور ہدیہ ہی دے دیا۔اس کتابچے کا نام ہے "شیعہ سنی مفاہمت کی ضرورت و اہمیت" از ڈاکٹر اسرار احمد،نام پرکشش ہونے کی وجہ سے بھی پڑھنے کا شوق پیدا ہوا جس کے بعد اس کا مطالعہ شروع کر دیا جیسے جیسے پڑھتا گیا  ویسے ویسے یقین اور پختہ ہوتاچلا  گیا کہ اخوانی فکر دراصل اہل توحید کی نسبت روافض کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے جبکہ اہل توحید کے لیے ان کے دلوں میں صرف بغض ہی بغض ہے۔ میرا مقصد عربوں کا دفاع کرنا نہیں  بلکہ حق واضح کرنا ہے۔  لیکن انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ پروپیگنڈے سے گریز کیا جائے اور تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی بھی کوشش کی جائے۔

ویسے تو کاروبار زندگی کی مصروفیت اتنی زیادہ ہے کہ اس طرح کے موضوعات کے لیے وقت نکالنا مشکل کام ہے۔ اس لیے کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر اس طرح کے معاملات کو خیر باد کہہ دیا  تھا ہے لیکن کچھ عرصے سے اور خاص کر پچھلے چند دنوں سے حدیث "ویل للعرب" کو لے کر  عربوں پر بہت شدید تنقیدی اور گولا بارود برسائے جا رہے ہیں گو کہ میں یہ موضوع قطعاً چھیڑنا نہیں چاہتا  تھا مگر جس شخصیت کے فہم نے فتنہ برپا کیا ہے سوچا مجبوراً تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھا ہی دیا جائے  تاکہ موحدین حضرات کسی دھوکے میں نہ رہیں۔

میں اہل علم اور مواحدین کے سامنے چند حوالے پیش کر رہا ہوں وہ اس کو پڑھیں اور جو اپنی رائے قائم کرہیں۔

اس کتابچے کے صفحہ نمبر 54 پر ڈاکٹر عبد الخالق صاحب لکھتے ہیں18اکتوبر ہمیں انقلاب ایران کے رہنما آیت اللہ خمینی کے مقبرے پر لے جایا گیا_جو  تہران سے  15 کلومیٹر دور تھا_عمارت باہر سے بہت خوبصورت تھی اور اندر سے سادہ ،شاید اس لیے کہ ابھی زیر تعمیر ہے۔مقبرے کے ساتھ ایک بہت بڑا کمپلیکس بنایا گیا ہے جس میں ایک دانش گاہ(یونیورسٹی)   اور ایک لائبریری بنانے کا منصوبہ ہے۔لوگ قبر کے پاس  جا کر دعائیہ کلمات ادا کرتے بظاہر کسی قسم کی شرکیہ حرکات  ہم نے نہیں دیکھی۔

 "ڈاکٹر عبد الخالق شریک سفر تھے ڈاکٹر اسرار کے ساتھ"

اسی طرح ڈاکٹر اسرار خمینی کے مزار پر حاضری کے متعلق  خود زبانی 

صفحہ نمبر 92 پر فرماتے ہیں  کہ "مزار پر  کوئی خرافات نہیں تھی!ہمیں اندیشہ تھا کہ آیت اللہ خمینی کے مزار پر ہمارے ہاں کے مزارات سے بھی زیادہ خرافات اور بدعات ہوں گی،لیکن ہم  کو وہاں کوہی ایساہی چیز  دیکھنے کو نہیں ملی_میں نے وہاں جا کر مسنون طریقہ سے سلام کیا۔

مواحدین سے گزارش ہے ذرا آنکھیں کھول کر یہ حوالے پڑھیں خمینی کے مزار پر حاضری  جبکہ آج کل کیا کچھ نہیں ہوتا ہے رافضيون کے مزارات پر۔ مگر اتنا حسن ظن ؟ اور آگے جو حوالے اب آنے لگے ہیں وہ بھی غور و فکر سے پڑھیں۔ شکریہ

ایک اور حوالہ پڑھیں خلفائے راشدین کے دشمنوں کے لیے ڈاکٹر صاحب کا حسن ظن اور نرمی ملاحظہ فرمائیے۔


ڈاکٹر اسرار فرماتے ہیں

 
ایک عالم دین جن کی میرے دل میں بڑی قدر ہے،ان سے ایک رات میری گفتگو ہو رہی تھی تو میں نے براہ راست ان سے خلافت راشدہ کے متعلق سوال کر دیا_وہ اس کے لیے  تیار نہیں تھے۔انہوں نے فوراً کہا وہ تو غاصب تھے،خلافت حضرت علی کا حق تھا،جسے غصب کیا گیا۔اب دوبارہ صبح ان سے میری ملاقات ہونا تھی،وہ رات بھر سوچتے رہے ہوں گے کہ میں نے یہ کیا کہہ دیا،یہ سنی ہیں اور پاکستان سے آئے ہیں ،یہ کیا تاثر کے کر جائیں گے۔ جب ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے تفصیل کے ساتھ اپنی بات بیان کی جو بڑی ذہانت پر مبنی تھی اور آخر تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔اس  روافضی  عالم دین  نے خلفائے راشدین کو غاصب کہا جبکہ  ڈاکٹر صاحب فرمارہے ہیں کہ اس کی باتیں بڑی ذہانت پر مبنی تھی(أستغفر اللہ).  لیکن پھر بھی حسن ظن کا اتنا اعلی مظاہرہ اگر یہ حسن ظن کا مظاہرہ اہل عرب کے لیے بھی کر لیا جاتا تو کیا تھا ؟مگر ادھر تو حدیث "ویل للعرب" کو لے کر امت مسلمہ کا گناہگارصرف عرب کو  ٹھہرا دیا گیا۔

صفحہ نمبر  ۲۳ اہل تشیع کا مستند موقف یہ ہی ہے کہ ہم اسی قرآن کو تسلیم کرتے ہیں۔(جبکہ تقربیا تمام ہی شیعہ مفسرین نے تحریف قرآن کا عقیدہ اپنی تفاسر میں پیش کیا۔آگئے خود لکھتے ہیں کہ اگر حضرت علی ؓ والا قرآن بھی کل کو ظاہر ہوجائے تو  ہم کو قرآن کی صحیح ترتیب  نزولی معلوم ہوجائے گا ۔(سبحان اللہ)

 (صفحہ نمبر ۳۲)

 ان تمام ممالک میں صرف ایک ملک ایران ایسا ہے جس نے اس سلسلہ میں کوئ پیش رفت کی اور اس مسلے کا کوئ حل نکالا ہے_چناچہ اس نے اپنے مزہبی تصورات و عقائد اور اپنی فقہ کے مطابق ایک مذہبی نظام قائم کیا ہے اور اس حوالے سے میں نے بارہا کہا ہے کہ ایران نے ہمیں روشنی دیکھی ہے،راہںمائ فراہم کی ہے،جبکہ پوری سنی دنیا "سن" پڑی ہوئی ہے اور ہمیں کہیں بھی اپنا نظام قائم کرنے کی توفیق نہیں ہوئ۔

اگست (۱۸) ۱۹۸۰ کو میں نے ضیاءالحق کی خدمت میں دست بستہ عرض کیا تھا کہ آپ زکوۃ آرڈینس واپس لیں (یاد رہے اس   زکوۃ آرڈینس کی مخالفت شیعوں نے بھی  کی تھی جس کے بعد  تقربیا ۵۰ ہزار شیعوں نے جمع ہوکر سول سیکر ٹریٹ کا گھیراو کیا تھا اور پھر صدر  ضیاءالحق کو یہ آرڈینس واپس لینا پڑھا ۔

از قلم  ڈاکڑ عبد الحق 
امیر تنظیم اسلامی کا ۱ نومبر ۹۱ کا خطاب
اہل تشیع کی تکفیر کا میں قائل نہیں ہوں  ۔۔بلکہ میں ان کو اسلام کا ہی ایک فرقہ سمجھتا ہوں۔اس لیےمیں سپاہ صحابہ ؓ کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی ؒ کے اخلاص کا تو قائل رہا ہوں لیکن اہل تشیع کی تکفیر کے بارےمیں ان کے موقف سے مجھے کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ان کی وفات کے بعد ایک تعزیتی جلسہ میں تقریر کے لیے مجھے بھی موعوکیا گیا تھا لیکن میں نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ میں جب میں نے زندگی میں ان کے موقف کی تائید نہیں کی تو ان کے انتقال پر اپنی سیاسی دوکان چمکانے کا فائدہ نہیں ۔(صفحہ نمبر ۷۱)

 
امیر تنظیم اسلامی کا ۱ نومبر ۹۱ کا خطاب
شیعہ سنی مذہب میں  فرق مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ  جہاں تک ایمانیات ثلاثہ یعنی ایمان باللہ ایمان بالر سالت اور ایمان بالاآخرۃ جیسے بنیادی عقائد کا تعلق ہے تو اس میں شیعہ اور سنی کے درمیان  کوئی فرق نہیں۔البتہ بعض کلامی بحثوں میں اختلافات موجود ہیں۔پھر آگئے لکھتے ہیں کہ شیعوں کا عقیدہ امامت معصومہ سراسر  غلط ہے۔(صفحہ نمبر ۷۲)۔پھر آگئے صفحہ پر لکھتے ہیں کہ امامت کا تصور بہر حال نبوت سے کم تردرجے کی چیز ہے اس لئے اس بنا پر ان کی تکفیر نہیں کی جاسکتی ہے (صفحہ نمبر ۷۳)

جبکہ امامت شیعیت  کےأصول دین کا حصہ ہے اور جو امامت کا قائل نہیں وہ کبھی بھی مومن نہیں ہوسکتا ہے  بلکہ امامت کا منکر کافر ہے۔  جبکہ مذہب شیعہ میں رسول پاک ﷺ کے بعد ان کے  ۱۲ امام کا درجہ تمام انبیا اکرام ؑ سے افضل ہے)۔   ایمان باللہ ایمان بالر سالت اور ایمان بالاآخرۃ جیسے بنیادی عقائد میں بھی ان کا واضع فرق سنی مسلمانوں کے ساتھ ہے۔یعنی ڈاکڑ اسرار احمد کے نزدیک شیعہ امامت  ایک فروعی مسئلہ ہے سنی اور شیعہ کے درمیان۔
مولانا لکھتے ہیں کہ   سنی اور شیعہ کا اختلاف گویا خلفائے راشدین   کے  بارے میں تاریخی نزاع ہے یہ ایسا ہی اختلاف ہے جیسے دیوبندیت اور بریلویت کا سارا اختلاف۔۔۔۔ یعنی موجود صدی کی دو شخصیات مولانا اشرف علی تھانوی ؒاور احمد رضاخان بریلوی کی وجہ سے پیدا ہوا۔ورنہ دونوں گروہوں کے عقائد و نظریات میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں (صفحہ نمبر ۷۵،۷۶) یعنی مولانا  کے نظریہ  کا حاصل یہ کہ سنی شیعہ کے درمیان اختلاف صرف شخصیات پر  قائم ہے ورنہ کوئی دوسرا قابل ذکر فرق نہیں 

( سبحان اللہ)   پھر آگئے شاہ ولی اللہ
شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ اور علامہ اقبال  کے دو  اقوال بھی  افضلیت علی ؓ پر نقل کردئے  یہ ثابت کرنے کے لیے کہ  کسی کی افضیلت اور خلافت سے کوئی فرق نہیں پڑھتا  جبکہ شاہ ولی اللہ  دہلوی نے اپنی کتاب المقدمۃ الثانیہ فی الانتصار للفرقۃ السنیہ اور  تفہیمات الہیہ میں شیعیت  کے عقیدہ امامت کو صاف کفر کہا۔
ڈاکٹر اسرار خمینی کے مزار پر حاضری کے متعلق  خود زبانی عرض کرتے ہیں صفحہ نمبر ۹۲ پر  کہ   ایت اللہ خمینی کے مزار پر ۔۔۔۔۔ وہاں جا کر مسنون طریقہ سے سلام کیا۔
"السلام علیکم یا اھل القبوع من المومنین و المسلمین یغفر اللہ لینا ولکم،انتم سلفںا و نحن بالاتر" پھر مزار کی طرف پیٹھ کر کہ قبلہ رخ ہو کر دعا کی_اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔یعنی مولانا   نے ایک طرف تو مولانا حق نواز جھنگوی ؒ  کی وفات کے بعد ان کی   ایک تعزیتی جلسہ میں تقریر کے لیے آنا تو پسند نہیں کیا  لیکن وہ خمینی   کی مزار پر دعا کرنے ایران چلے گئے۔(یاد رہے یہ وہ ہی خمینی  ہے  جس نے اپنی کتاب کشف اسرار میں خلفاء ثلاثہ ؑ کو کافر  اور غاصب لکھا تھا جبکہ اپنے آخر وصیت نامے میں اس نے رسول پاک ﷺ و حضرت علی  ؓ  کے ساتھوں کو نافرمان لکھا تھا  اور اپنی ایران عوام کو ان کے لیے   مثال کے طور پر پیش کیا تھا۔

 
مولانا  ایرانی  آیت اللہ خامنہ ای  کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ  میں نے آج تک ایسی شخصیت نہیں دیکھی جو سادگی شرافت منانت تحمل و بردباری وجاہت کا عظیم مرقع اور مجسمہ نظر  ہو ۔(صفحہ نمبر ۹۳) ہم مولانا کو  خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ جو آگ اور خون کا کھیل انقلاب ایران سے شروع ہوا  آج تک جارہی ہے اس میں مولانا جناب آیت اللہ خامنہ ای کے  ہم نوا اور ہم آواز  ہیں۔خدا ہم کو ایسی انقلابی  خلافت  سے کوسوں دور رکھے جس میں  اسلام کا عنصر ناپید اورایرانی  پاسدار انقلاب  سوچ واضح ہو۔

اس کے علاؤہ بھی کئی حوالے اس کتاب میں موجود ہیں۔  جیسے ڈاکٹر صاحب کا شیعوں کے ساتھ نماز ادا کرنا۔ مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ ایران میں سنی مساجد کی تعمیر پر پابندی ہے  لیکن پھر بھی ڈاکٹر صاحب کے لیے مشعل راہ انقلاب ایران اور خمینی ہی ہے جبکہ  دوسرے طرف سعودی حکمرانوں سے بغض کا اظہار ان کی بادشاہت کے سقوط کا خواب دیکھنا  مولانا کا وطیر بنارہا ۔

سو احباب یہ چند حوالہ جات ہیں جو آپ کے سامنے رکھے ہیں تاکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھا جا سکے کہ حدیث میں ویل للعرب  کا سہارا لے کر عربوں کے خلاف اتنا شدید پروپیگنڈا اور روافض کے لیے اتنا نرم گوشہ ایک حیریت ناک تجزیہ ہے۔  حتی کہ  موصوف ڈاکٹر صاحب کو یہ بھی شاہد یاد نہ رہا کہ اصفہان (ایران)کے ستر ہزار یہودی دجال کے ساتھ ہوں گے۔

 

از قلم فرید الدین انصاری


Comments

Popular posts from this blog

History Of Drones Strike In Pakistan From (18 June 2004 To 5 July 2018)

پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی خفیہ تاریخ

ایرانی جرنل قاسم سلیمانی ایک خونی درندہ