ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں عروج و زوال کی حقیقت

 

 

ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں عروج و زوال  کی   حقیقت

ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کا  باضابطہ طور  پر آغاز  28 مارچ سن 1949 میں  ہوا۔جب ترکی اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلمان  ملک بن گیا۔   جس کے بعد دونوں ممالک نے فوجی ، اسٹریٹجک اور سفارتی تعاون کو اعلی ترجیح دی۔

Ref 

1) https://www.aa.com.tr/en/middle-east/turkey-israel-relations-a-timeline/598666
2) Timeline of Turkish-Israeli Relations, 1949–2006 Archived 19 March 2009 at the Wayback Machine0

                                                                                             1950

میں ترکی نے تل ابیب میں پہلا سفارتی مشن شروع کیا

1954

 میں  اسرائیل نے مصرکے سینا جزیرہ نما پر حملہ کر کے   سویز نہر پر قبضہ کرلیا  جس کے بعد ترکی  نے  اپنی سفارتی نمائندگی کو گھٹا کر اسرائیل میں کم کردیا۔

1958

میں  اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بین گورین اور ترکی کے وزیر اعظم عدنان مانڈیرس نے ایک "پردیی معاہدہ" پر گفتگو کی جس کے تحت  تعلقات عامہ کو بڑھنے پر زور دیا  ساتھ ساتھ  انٹلیجنس معلومات کا تبادلہ اور فوجی مدد بھی شامل تھی

1963

میں اسرائیل میں ترکی کی سفارتی نمائندگی کو قونصل خانے کی سطح تک اپ گریڈ کردیا گیا۔

1967

میں اسرائیل نے یروشلم سمیت عرب سرزمین کے بڑے حصوں پر قبضہ کیا جس کے بعد  ترکی نے احتجاج کیا۔

1975

میں ترکی نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا۔

1980

 میں اسرائیل میں ترک سفارتی نمائندگی کو سفارتی سطح تک بڑھا دیا گیا۔

میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم  کا الحاق کرکے یروشلم کو اپنادارالحکومت قرار دے دیا۔ترکی نے ایک بار پھر اپنی سفارتی نمائندگی کو کم کردیا ۔

1986

 میں  پھر ایک بار ترکی  کی سفارتی نمائندگی کو قونصل خانے کی سطح تک اپ گریڈ کردیا گیا۔

1987

 میں  پہلا انتفاضہ  یعنی   فلسطینیوں  نے اسرائیلی قبضے کے خلاف آواز بلند کی جس کی حمایت ترکی نے کی

1988

میں ترکی نے  باضابطہ طور پر   فلسطین  کو تسلیم کرلیا جس کے بعد  ترکی اور اسرائیل کے تعلقات  کشیدہ ہوگئے

1991

میں  مشرق وسطی میں امن  کے عمل کا آغاز ہوا جس کے بعد ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں بہتری آئی

1994-1998

 میں انقرہ اور تل ابیب نے سلامتی ، دفاع اور معیشت کے شعبوں میں متعدد معاہدوں پر دستخط کیے۔

1996

میں ترکی اور اسرائیل کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔

2000

میں دوسرے ا نتفاضہ   کے بعد ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں پھر سے  دباؤ بڑھ گیا۔

2002

Anti Semitismمیں جب طیب اردگان کی حکومت آئی  تو   انہون نے اسرائیل  وزیر اعظم   شیرون کو بتایا کہ وہ  خود

 کو انسانیت کے خلاف سمجھتے ہیں اور وہ ایران کے جوہری عزائم  کو نہ صرف اسرائیل کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں بلکہ پورے  دنیا کے لیے بھی وہ اس کو خطرہ سمجھتے ہیں

Ref
3)"Erdogan's travels". The Economist. Archived from the original on 25 April 2016. Retrieved 17 April 2016

2006

  اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا  جس کے بعد ترکی  نے  ایک بڑا احتجاج نکالا۔

2008-2009
 
 میں اسرائیل کی دہشت گردی کے ہاتھوں ۱۴۰۰ فلسطینی شہید ہوئے جس کے بعد ترکی نے اس کارروائی کی مذمت کی
 
2009
 
ہی میں سوئٹزرلینڈ کے ڈیووس  ورلڈ اکنامک فورم میں  طیب  اردگان نے  غزہ پر حملے کرنے  اور اس کی  حمایت کرنے پر اس وقت کے اسرائیل صدر شمعون پیریز کو سرئے عام تنقید کا نشانہ بنایا۔ 
 
2010
 
میں ترکی نے اپنے سفارتی تعلقات معطل کردئے اسرائیل کے ساتھ  مارمارا کے  حملے کے بعد
 
2011
 
میں   ایک فوجی فضائی مشق ترکی ، اسرائیل ، امریکہ اور اٹلی پر مشتمل تھی۔ تاہم ، ترکی نے اسرائیل کو اناطولین ایگل فوجی مشق سے روک دیا تھا جس کے دونوں کے درمیاں پھر سے  تعلقات  بگڑ  گئے
Ref
4) Stormy debate in Davos over Gaza". Al Jazeera English. 30 January 2009. Archived from the original on 30 January 2009. Retrieved 1 February 2009.
5)"Israel hits back at Turkey over scuppered air force drill". Haaretz. 10 November 2009. Archived from the
 
2013
 
میں  اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو نے  حملے کے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔
 
2016
19 مارچ
 کو جب الدولت اسلامیہ نے  بم کے ذریعہ ۳ اسرائیلی قتل اور ۱۰ زخمی کیے تو طیب اردگان نے ایک خط اسرائیل کے
 اسرائیلی صدر ریون ریولن  کو لکھا  جس میں انہونے اظہار افسوس کیا جس کے اگلے روز ہی  اسرائیلی وزارت خارجہ ڈائریکٹر جنرل  ڈور گولڈ  استنبول پہنچے  جس کے بعد دونوں ممالک نے مل کر الدولت اسلامیہ سے لڑنے کی حامی  بھری اور ترکی کا  شکریہ اداد کیا اور واپس چلے گئے 

 
Ref
 
6) https://www.washingtonpost.com/world/apparent-suicide-bombing-kills-at-least-5-in-istanbul-shopping-area/2016/03/19/40c5c242-edc0-11e5-bc08-3e03a5b41910_story.html
 
2016
 
 میں اسرائیل  نے تعلقات معمول پر لانے کے لئے ترکی کی پیشگی شرائط کو قبول کرتا ہےبشمول مووی مارمارہ متاثرین کے اہل خانہ کو معاوضہ دینے کے مطالبا ت سمیت
 
2018
 
میں  جب امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا  تو اردگان نے اسرائیل کو  "دہشت گرد ریاست" کہا
 
Ref
 
7) https://www.independent.co.uk/news/world/middle-east/turkey-recalls-ambassadors-erdogan-israel-gaza-protests-genocide-us-embassy-jerusalem-border-fence-a8351746.html
 
2019
 
 میں اسرائیلی وزیر اعظم  نیتن یاھو نے  ترکی   کی شمال مشرقی شام پر حملہ کی مذمت کی  اور   کردوں کی نسلی  کشی  پر ترکی کو  انتباہ کیا۔
 
Ref
 
8) Netanyahu Warns Against Turkey's Ethnic Cleansing of 'Gallant Kurds'; Vows to Assist". Haaretz. 10 October 2019.
 
 معاشی تعلقات ترکی اور اسرائیل کے درمیان
 
 
 1996
 
میں ترکی اور اسرائیل کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے دو سال بعد دوطرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔
 
Ref
9)"Turkey, Israel: Potential for a fresh start?". Archived from the original on 27 April 2016. Retrieved 17 April 2016.
 
اسرائیل اور ترکی کی تجارت 2011 کی پہلی ششماہی میں 26 فیصد اضافے سے 2 ارب ڈالر رہی جو 2010 کے پہلے نصف حصے میں 1.59 بلین ڈالر تھی جبکہ  اسرائیلی چیمبر آف کامرس کے مطابق اسرائیلی  کی برآمدات  ترکی کے ساتھ ۳۹ فیصد بڑھ کر ۹۵۰ ملین  ڈالر ہوگئی اور ترکی سے درآمدات 16 فیصد اضافے سے 1.05 بلین ڈالر  تک جا  پہنچی۔
 
Ref
10)https://en.globes.co.il/en/article-1000675654 
 
 ترکی اسرائیل کی چھٹی بڑی برآمدی کی منڈی ہے جس میں کیمیکل اور آئل ڈسٹلیٹ بنیادی برآمدات ہیں
 
Ref
11)https://www.theatlantic.com/international/archive/2011/09/tie-still-binds-israel-and-turkey-trade/338392/

ترکی اسرائیل سے ہائی ٹیک دفاعی سازوسامان خریدتا ہے ، جبکہ ترکی اسرائیل کو فوجی جوتے اور یونیفارم مہیا کرتا ہے
 
Ref
12)"ECONOMY – Business as usual between Turkey, Israel". Archived from the original on 13 April 2016. Retrieved 17 April 2016.
 
اسرائیل سن ۲۰۰۷ سے اب تک ترکی سے سبزیوں کی درآمد   کررہا ہے  جس کے بدلے وہ  تیار شدہ اشیائے خوردونوش ، مشروبات اور تمباکو کی درآمد کرتا ہےجو ۲۰۰۷ تا ۲۰۱۱ کے دوران دوگنی ہوگئی تھی
 
Ref
13)https://web.archive.org/web/20160427200558/http://globalpublicsquare.blogs.cnn.com/2012/05/31/turkey-israel-potential-for-a-fresh-start/ 
 
اسرائیل سے روز ۱۰ پرواز  ترکی جاتی ہیں جس میں لاکھوں اسرائیل سفر کرتے ہیں۔
 
Ref
14)https://en.globes.co.il/en/article-turkish-airlines-adding-tenth-daily-flight-from-tel-aviv-1001245958
جبکہ ترکی سے اسرائیل ہرہفتہ۱۷ ہوا پرواز اسرائیل جاتی ہے 
 
Ref
15)https://en.globes.co.il/en/article-turkish-airlines-plans-17-weekly-tel-aviv-flights-from-july-1-1001333409
 
 ترکی اور اسرائیل کے  درمیان فوجی تعاون
 
اسرائیل نے  ترکی کو جدید بنانے کے لیے اس کوایف4ایجیٹ طیاروں ایم 60ٹینکوں او ر  ہیروون ڈرون دیئے دوسری طرف  اسرائیلی پائلٹوں نے ترکی میں تربیت حاصل کی ۔ 
 
Ref
16)https://www.fdd.org/analysis/2018/11/29/turkey-israel-relations-flourishing-trade-but-little-trust/
 
ترکی اور اسرائیل کے درمیان  معاہدوں میں فضائی ، سمندری ، زمینی اور انٹیلیجنس تعاون ، ہوائی جہاز کی تیاری ، اسلحہ سازی اور میزائل ، باہمی فوجی دورے ، تربیت اور مشقیں  شامل تھیں ۔فوجی مشقوں کی نگرانی کے لئے مبصرین کی ترسیل ، عملے کے تبادلے اور فوجی جانکاری شامل ہیں۔
 
Ref
17)https://apps.dtic.mil/dtic/tr/fulltext/u2/a404530.pdf 
 
ہوائی جہاز  ملیں گئے900ملین ڈالر کے۔F-5 فینٹمز اور F-4اس معاہدہ کے تحت  ترکی کو جدید

ٹینکون کو جدید بناجائے گا۔جس پر 687ملین ڈالر خرچ ہونگے۔پوئپے1اور2میزائل جو سطح سے ہوا تک(M60A1) ترکی کے
 مار کرنے والے میزائل ملیں گئے جس کی قیمت  ۱۵۰ ملین ڈالر ہوگئی۔ ہیرون یو اے وی ڈروان ملیں گئے جس کی قیمت  ۱۸۳ ملین ڈالر ہوگئی۔ایرو  اینٹی بیلسٹک میزائلوں  مل نے پر بھی  دستخط کیے گئے تھے۔ اس معاہدہ کے تحت  سال میں آٹھ دفہ ترکی اور اسرائیل کے پائلٹوں میں بھی  ایک دوسرے کے پاس آجا سکیں گئے۔ لیکن ۲۰۱۱ میں یہ معاہدہ  کو روک دیا گیا۔
Ref
18) Nechmani, 1998: pg. 24; Pipes, 1997, pg. 34
 
 
 ترکی اور اسرائیل کے درمیان سیاحت
 
کسی بھی اسرائیلی کو ترکی جانے کے لیے ویزا کی ضرورت نہیں ہوتی  البتہ عام ترکش کو اسرائیل جانے کے لیے ویزا کی ضرورت ہوئی ہے۔ آج بھی تقریبا ۱۵۵۰۰ سے ۲۱۰۰۰ اسرائیلی ترکی میں بستے ہیں۔۲۰۰۸۔۲۰۰۹ کی  غزہ جنگ کے دوران اسرائیل سیاحت کی تعداد کم ہو گئی تھی لیکن پھر ۲۰۱۰ ۔۲۰۱۱ میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔

Ref
19)https://www.worldjewishcongress.org/en/about/communities/tr

ترکی اور اسرائیل  کی انسان دوستی کی بنیاد میں  ایک دوسرے کی مدد


سن ۱۹۹۹ ترکی میں ازمٹ زلزلے کے بعد  اسرائیل نے  اپنی ٹیم جو  آئی ڈی ایف ایس اے آر ٹیم کے سینکڑوں اہلکار ، پیرا میڈیکس ، سرجن اور انتظامی عملہ پر مشتمل تھی ترکی   بھیجی  یاد رہے اس زلزالے میں ۱۷۰۰۰ ترکی کے باشندہ ہلاک ہوئے تھے ۔
 
Ref
20)https://www.nytimes.com/1999/08/28/world/quake-relief-shows-israel-feels-deeply-for-turkey.html 

دوسری طرف جب اسرائیل میں ماؤنٹ کارمل جنگل میں آگ لگی تو  ترکیوہ پہلا ملک تھا جس نے اسرائیل کی مد د  کے لیے اپنے دو  وہاں دو  فائر فائٹنگ ہوائی جہاز بھیجے
 
Ref
21)https://www.wsj.com/articles/SB10001424052748703350104575652872522576084 
2011
میں جب ترکی میں زلزلہ آیا تو ترکی کی  درخواست پر  اسرائیل نے وہاں  مصنوعی مکانات اور خیمے بھیجے۔
Ref
22)https://web.archive.org/web/20111025220658/http://www.jpost.com/DiplomacyAndPolitics/Article.aspx?id=243154

 
ثقافتی تعلقات
ارکادا ایسوسی ایشن کا قیام 2003 میں ترک یہودیوں کے ورثے کے تحفظ ، لدینو کے مطالعے کو فروغ دینے ، اور اسرائیل اور ترکی کے مابین تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ اس تنظیم کے قیام کے بعد سے اب تک 4،000 سے زیادہ ممبران ہیں ، ملک بھر میں اس کے وسیع آپریشن اور اس کی بارہ شاخوں کو چلانے کے لئے 40 کے قریب رضاکار ہیں

Ref
23)https://web.archive.org/web/20160405010418/http://www.arkadas.org.il /site/index.asp?depart_id=99510&lat=en

24)https://www.jpost.com/National-News/Israeli-Turks-watch-relations-crumble-between-their-lands


ترکی و اسرائیل کے مابین اقتصادی تعلقات
موجودہ برآمدات اسرائیل کی ترکی سے  مئی میں  259.91 ڈالر سے بڑھ کر جون میں  378.73 ڈالر ہوگئی مالی سال ۲۰۲۰ میں۔ 
میں
 
Ref
25) https://tradingeconomics.com/turkey/exports-to-israel
 
جون میں اسرائیل سے درآمدات ترکی کی مئی میں  114851.86 ڈالر تھی جبکہ جون میں  بڑھ کر  98597.41 ڈالر ہوگئی

Ref
26)https://tradingeconomics.com/turkey/imports-from-israel
 
 ترکی کے وہ احسانات جو وہ اسرائیل کے ساتھ کرتا رہے ہے اور پھر بھی اردگان پاکستانیون کا ہیرہ مانا جاتا ہے

اسرائیل کے اندر تعمیراتی امور میں ترک کمپنیاں سب سے آگے ہیں۔ بلڈنگ بنانے سے لیکر بندرگاہ بنانے تک۔
اسرائیل کو لوہا اور سمنٹ ایکسپورٹ کرنے میں ترکی دنیا کے اندر پہلے نمبر پر ہے ۔
ترکی بھی ان ممالک میں شامل ہے جو اسرائیل کو باقاعدہ پابندی سے ہتھیار سپلائی کرتے ہیں۔
ترکی بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں اسرائیلی فوج ٹریننگ لینے جاتے ہیں۔
اسرائیل کو تیل سب سے زیادہ ترکی سپلائی کرتا ہے۔ گزشتہ سال دھمکی کے وقت بھی ایک دن کیلئے بھی یہ سپلائی نہیں کاٹی گئی تھی۔
دنیا میں سب سے زیادہ اسرائیلی سیاح ترکی جاتے ہیں۔
گزشتہ سال اسرائیل کی گولڈن جوبلی منانے میں ترکی سب سے آگے آگے تھا۔
اسرائیلی فوجیوں کا پیکنگ کھانا باقاعدہ ترکی کمپنیوں سے بن کر آتا ہے۔
گیس پائپ لائن کا معاہدہ أردگان نے اسی سال اسرائیل سے کیا ھے جو باقاعدہ اسرائیل سے ترکی جائے گا۔

 
آخری  نتیجہ 
 اسرائیل سےترکی کےسفارتی اورتجارتی تعلقات کی کہانی ابھی کیسی سے ڈھکی  چھپی بات نہیں۔عالمی سیاست میں کوئی کیسی کا دوست نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی جذبات اور مذہب کوئی  مرکزی  معیار رکھتے ہیں بلکہ آج کا دوست کل کا دشمن اور کل کا دشمن  بھی آج کے دوست بن سکتے ہیں۔آپ نے خود ہی  ترکی اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی  عروج و زوال کی داستان کو سمجھ لیا ہوگا۔جس میں  ایک طرف آ پ کو دو  سخت دشمن نظر آتے ہوں گئے اور دوسری طرف آپ کو دو اچھے دوست جو ایک دوسرے کے خوب کام  آتے ہیں ایک دوسرے کی مشکلات میں۔فلسطین اور اسرائیل کا مسئلہ ہمیشہ ترکی اور اسرئیل کے درمیان ہمیشہ سے میدان جنگ  بنا ہوا رہوا رہا ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل اور ترکی کے آپس کے معاملات کی کہانی طویل ہے جس میں   فوجی تعاون،سیاحت،ثقافت،آفاتی  مصیبت   درآمدات اور برآمدات  سر فہرست  ہیں۔ اس لیے  اگر آپ عرب کو اسرائیل کا  ایجنٹ کہتے ہیں تو یہ آپ کی کم علمی اور جہالت کے سوا کچھ اور نہیں اس لیے کہ سعود ی عرب   نے اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جبکہ ہزاروں  فلسطینی کے قتل عام کے بعد بھی    ترکی کے شہر انقرہ میں  آج بھی اسرائیل کا سفارتخانہ موجود ہے جس میں ان کا تمام عملہ کام کرتا ہے۔آج بھی کوئی اسرائیلی سعودی عرب نہیں جاسکتا ہے جبکہ ۲۱۰۰۰ کے لگ بھگ آج بھی اسرائیلی ترکی میں بستے ہیں جن کوویزا لینے کی ضرورت بھی نہیں۔یو اے ای آج بھی  پیلیسٹین کا دوسرا بڑھ  ڈونر ہے یعنی ملی مد کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک۔اس لیے یہ کہنا کہ صرف یو اے ای نے  پیلیسٹین کو  بیچا صرف  اپنے ساتھ تمسخر کرنا ہے۔انشاءاللہ اگلی دفہ پاکستان اور اسرائیل تعلقات کی پس پردہ  حقیقت لکھی جائے گئی۔
 

 

 

 

 


 




از قلم فرید الدین انصاری


Comments

Popular posts from this blog

History Of Drones Strike In Pakistan From (18 June 2004 To 5 July 2018)

پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی خفیہ تاریخ

ایرانی جرنل قاسم سلیمانی ایک خونی درندہ